قرارداد  پاکستان اور  ڈیرہ اسماعیل خان کے ہیروز

تحریر :ایچ –ایم-زکریا



آل انڈیا مسلم لیگ 1906ء میں ڈھاکہ میں قائم ہوئی اس کے بعد ہر سال یہ برصغیر کے مختلف شہروں میں اپنے اجلاس منعقد کیا کرتی تھی جس میں مسلمانوں کو درپیش سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی مسائل پر بات ہوا کرتی تھی لیکن 1939تک ایک الگ وطن کا مطالبہ کافی زور پکڑ چکا تھا اور علیحدہ وطن کے سلسلے میں حیدر آباد کے عبد الطیف،  پنجاب کے وزیر اعلیٰ سرسکندر حیات اور علی گڑھ کے ڈاکٹر سید ظفر الحسن نے تو فارمولے تک دے دیے قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں ایک نو رکنی کمیٹی مقرر کی گئی تا کہ وہ ان تمام تجاویز اور سکیموں کا تفصیلی جائزہ لے کر ایک جامع رپورٹ اور سفارشات بنا سکے۔  ڈیرہ اسماعیل خان کو بھی اس کمیٹی میں نمائندگی کا منفرد اعزاز ملا، سرداراورنگزیب خان گنڈہ پور صوبہ سرحد) خیبر پختون خواہ (  کے واحد ممبر کی حیثیت سے شامل تھے وہ اس وقت سرحد) خیبر پختون خواہ (   اسمبلی کے قائد حزب اختلاف تھے اس کمیٹی کا آخری اجلاس  5فروری 1940میں دہلی میں ہواجس میں علیحدہ وطن کے مطالبے کو آخری شکل دی گئی۔کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ لاہور کے سالانہ اجلاس میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا جائے۔ لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس کی تیاریاں شروع کر دی گئیں مگر انگریز حکومت اس کو ملتوی کرانے کی فکر میں تھی۔ 19مارچ 1940کو اونچی مسجد بھاٹی دروازے سے 313 باوردی خاکساروں کا ایک پرامن دستہ نکلا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انگریز ایس پی کے اشارے پر ایک پولیس افسر نے دستہ کے سالار کے منہ پر ایک تھپڑ مارااس پر خاکساروں نے پولیس پر ہلہ بول دیا پولیس نے گولیاں چلانا شروع کر دیں اس فائرنگ کے نتیجہ میں سرکاری بیان کے مطابق 32 خاکسار شہید ہو گئے مگر وہ 50 سے کم نہ تھے اس کے بعد لاہور میں کرفیونافذ کر دیا گیا۔ یہ مسلم لیگ کا جلسہ روکنے کی ایک کوشش تھی اس کو امن وامان کا مسئلہ بنا کر وزیر اعلیٰ پنجاب نے جلسہ ملتوی کرانے کا خیال ظاہر کیا ساتھ ہی محکمہ زراعت نے جلسہ کرنے کی اجازت دی تھی نے اچانک 8ہزار روپے طلب کر لیے اور اجازت نامہ منسوخ کرنے کی دھمکی دے دی اس سے پہلے وہاں سکھوں کا جلسہ ہو چکا تھا ان سے صرف 5سو روپے مانگے گئے تھے ۔ قائد اعظم فئیر میل کے ذریعے 21مارچ کو لاہور پہنچے انہوں نے اسٹیشن پرنہ صرف ہار پہننے سے انکار کر دیا بلکہ اپنی  کار سے بھی ہار اتروا دئیے وہ سیدھے میو ہسپتال پہنچے زخمی خاکساروں کی عیادت کی۔ 1940میں مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ 22مارچ کو لاہور کے منٹو پارک میں جمعہ کی نماز کے بعد شروع ہو ا اس کا سٹیج اس مقام پر بنایا گیا جہاں آج مینار پاکستان کی شاندار عمارت کھڑی ہے۔ سٹیج حاجی الف دین نے تیار کیا سٹیج پر جو بینر لگا تھا اس پر علامہ اقبال کا یہ شعر لکھا تھا۔

جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید رہتے ہیں

          ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے

جلسے کا آغامیں تلاوت کلام پاک حافظ محمد یعقوب حضروی نے کی۔ یوپی کے انور شاہ غازی نے میاں بشیر احمد کی نظم "ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح ہے"  اپنے مخصوص بانکپن میں پڑھی جلسہ میں ایک لاکھ افراد سے زیادہ لوگ شامل تھے 22مارچ کو ہونے والے پہلے اجلاس میں محمد علی جناح نے 100منٹ فی البدیہہ تقریر کی یہ تقریر دراصل ان کا خطبہ صدارت تھا۔ دوسرے دن 23مارچ 1940کو قرارداد لاہورمولوی فضل الحق نے پیش کی تو اس سے اگلی  صبح یعنی 24 مارچ کے ہندو اخبارات ) پرتاپ، ملاپ (  چھپے تو انہوں نے طنزیا  اسے قرارد اد پاکستان کا نام دیا،  محمد علی جناح کو یہ اخبار ناشتے کی ٹیبل پر ملے تو انھوں نے یہ دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا کہ ہندوں نے ہمارا کام آسان کردیا ہے اور اس نام کو قبول کر لیااب یہ قرارداد لاہور سے قرارداد پاکستان بن گئی۔ اس اجلاس میں صوبہ سرحد کی نمائندگی کا اعزاز ڈیرہ اسماعیل خان ہی کو ملا۔ سردار اورنگزیب خان گنڈہ پور ) ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی سے تعلق رکھتے تھے (  اس تاریخی قرارداد کی تائید کرنے والے سرحد کی طرف سے رہنما تھے اور قرار داد کی حمایت میں بہترین تقریر کی۔آل انڈیا مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان سےبھی  گیارہ رکنی وفد لاہور گیا، جن کے نام یہ ہیں ۔ شہزادہ فضل داد، محمد نواز بارکزئی، مولا داد بلوچ، سید احمد حسین، محمد دین پریس رپورٹر، عبد الصمد خان، لالا حیات، عبدالکریم، شیخ عبدالحمید، غلام محمد اعوان، مموں نائی،۔  یہ لوگ اپنی سبز وردیاں اور مسلم لیگ کا جھنڈا بھی ساتھ لے گئے لاہور یہ بذریعہ ریل گئے ۔ منٹو پارک میں ڈیرہ اسماعیل خان کو سترہ نمبر ٹینٹ ملا جس کے باہر مسلم لیگ کا بورڈ اور جھنڈا لگا دیا گیا تھا۔ قراردادپاکستان نے ملک بھر کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کے مسلم لیگیوں میں بھی نئی روح پھونک دی محمد علی جناح نے اس اجلا س میں عوامی آگہی اور کانگریس کا پروپیگنڈہ توڑنے کے لیے مسلم لیگی لیڈران کو دوروں کی ہدایت فرمائی تو سردار اورنگ زیب خان نے سرحد میں نواب بہادر جنگ کو بھیجنے کی درخواست کی جو قائد اعظم نے منظور کر لی سرادار اورنگزیب خان نواب بہادر جنگ کو ڈیرہ اسماعیل خان بھی لائے یہاں ان کا بے مثال استقبال کیا گیا، بازار کو مسلم لیگ کے کارکنوں نے دلہن کی طرح سجایا جلوس میں شامل اونٹوں اور گھوڑوں نے اس کی شان کو دوبالاہ کر دیا۔ رات کے وقت میدان حافظ جمال میں مسلم لیگ کا ایک شاندار جلسہ منعقد ہوا جس میں سردار اورنگزیب خان نے اپنی تقریر میں نواب بہادر جنگ کا تعارف کرایا لاہور جلسے کی روداد بھی سنائی اور خطاب کے بعد قرارداد لاہور کے متعلق سوالات کے جوابات بھی دئے گئے۔