اصل امتحان
تحریر : ایچ –ایم - زکریا
ایک استاد اپنے کسی طالبعلم کو فیل نہیں کرتے
تھے ان کی کلاس میں کوئی آجاتا تھا وہ پاس ہو کر اگلی کلاس میں ضرور پہنچ جاتا تھا
ان کے بارے میں کہا جاتا تھا ان سے فیل ہونے کے لیے خصوصی مہارت اور غیر معمولی
صلاحیت چاہیے آپ اگر نالائق ترین طالبعلم بھی ہیں تو بھی وہ آپ کو فیل نہیں کریں
گے ۔ ان کے سٹوڈنٹس تو بعض اوقات خالی پیپر دے کر آجاتے تھے اور وہ انہیں صفائی کے
نمبر دے کر پاس کردیتے تھے ۔ آپ کی زندگی میں بھی بہت سے استاد آئے ہوں گے ان میں
نرم مزاج بھی ہوں گے اور سخت مزاج بھی ۔لیکن ان میں ماسٹربشیر جیسا استاد نہیں
ہوگا ۔ ماسٹر بشیر نے قسم کھا رکھی تھی کہ وہ اپنے کسی طالبعلم کو کبھی فیل نہیں
ہونے دے گا خواہ وہ سٹوڈنٹ اپنے پیپر کی شیٹ پھاڑ کر ہی کیوں نہ آجائے خواہ وہ
نالائق اعظم ہی کیوں نہ ہو ۔ ایک طالبعلم جو اپنی عملی زندگی میں کامیاب اور مشہور
سیبلیرٹی تھا ماسٹر بشیر ان کے ذہن سے کبھی مہو نہیں ہواوہ طالبعلم ایک بارانہیں تلاش کرتا کرتا ان کے گاؤں پہنچ
گیا، ماسٹر بشیر اب ریٹائر ہو چکے تھے،
بوڑھے بھی تھے اور بیمار بھی تھے ،انہیں سنائی بھی کم دیتا تھا اور ان کی نظر بھی
کم ہوچکی تھی ، وہ طالبعلم ان کی چارپائی پر بیٹھ گیا اور ان کے کان پر جھک کر
اپنا تعارف کرانا شروع کردیا وہ اسے بھول چکے تھے ظاہر ہے جس شخص نے اپنی زندگی
میں ہزاروں طالبعلموں کوپڑھایا ہو وہ سب کو کیسے یاد رکھ سکتا تھا اور یہ طالبعلم
طالبعلمی کے دور میں کوئی ایسا بریلیئنٹ طالبعلم بھی نہیں تھا جو ماسٹر بشیر کو
یاد رہ جاتا ، بہرحال وہ طالبعلم انہیں یاد دلانے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ چوتھی
جماعت کا آپ کے پاس طالبعلم رہا ہے ۔ اس کے بعد طالبعلم نے ماسٹر بشیر سے کہا کہ
میں آج تک حیران ہوں کہ آپ اپنےتمام سٹوڈنٹس کو پاس کیوں کر دیتے تھے؟ آپ نے کبھی
کسی کو فیل کیوں نہیں کیا ؟ ماسٹر بشیر یہ
سن کر ہنسے اور بولے کہ بیٹا اصل امتحان زندگی ہوتی ہے سکول نہیں ۔سکول تو بس نیٹ
پریکٹس ہوتا ہے یہ تو بس سٹوڈنٹس کو یہ بتاتا ہے کہ تم امتحان کی طرف بڑھ رہے ہو،
سکول تو بس سٹوڈنٹس کو امتحان کی عادت ڈالتے ہیں وہ رکے اور لمبی سانس لی اور
طالبعلم سے پوچھا کہ تم نے کتنی جماعتیں پڑھی تھی طالبعلم نے جواب دیا 16 جماعتیں
۔ وہ بولے تم نے 16 جماعتوں میں کتنے
امتحان دیے ۔ طالبعلم نے کچھ سوچ کر جواب دیا کہ تمام کلاسز کے ہر سبجیکٹ کے ملا
کر تقریبا اڑھائی سو امتحانات دیے، وہ ہنس
کر پوچھنے لگے ہم نے یہ اڑھائی سو امتحانات کیوں لیے سٹوڈنٹس کے پاس اس سوال کا
کوئی جواب نہیں تھا وہ بولے ہم نے تمھیں ان اڑھائی سو امتحانات سے صرف اس لیے
گزارا کہ تم زندگی کے امتحان کی عادت ڈال لو ، تمھیں اصل امتحان یعنی زندگی کے
امتحان کے لیے تیار کیا تھا وہ رکے اور پھر بولے اصل امتحان زندگی ہے فیل اور پاس
ہونے کا فیصلہ سکولوں ، کالجوں اور یوینورسٹیوں میں نہیں ہوتا زندگی کی امتحا ن
گاہ میں ہوتا ہے تم کتنے بریلیئنٹ ، تم کتنے سمارٹ ، تم کتنے سمجھدار اور تم کتنے
ذہین ہو اس کا فیصلہ سکول نہیں زندگی کرتی ہے
لہذا میں چاہتا تھا کہ میرا ہر طالبعلم میرے امتحان کے بجائے زندگی کے
امتحان کی تیاری کرے یہ اصل میدان میں جا کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے وہ رکے
اور بولے ہمارے نظام تعلیم میں خرابی یہی ہے کہ یہ بچوں کو کلاس رومز میں ہی فیل
یا پاس کا سرٹیفیکیٹ دے دیتے ہیں اور جب
یہ زندگی کے امتحان میں اترتے ہیں تو یہ پہلے سے ہی فیل یا پاس ہوتے ہیں یہ وہاں کھل کر اپنی
صلاحیتوں کو آزما ہیں نہیں سکتے ۔ ماسٹربشیر نے سٹوڈنٹس سے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ تم
اچھے طالبعلم تھے یا برے طالبعلم تھے ۔ سٹوڈنٹس نے کہا کہ میں ایک ایوریج طالبعلم
تھا میرے کسی ایگزام میں اچھے مارکس نہیں آئے تھے ماسٹر بشیر نے تھوڑا سا کھانسا
اور پھر پوچھا اب تم کیسے زندگی گزارر ہے ہو تو یہ طالبعلم اب ایک کامیاب بزنس مین
اور سیلبیرٹی بھی تھا بولا کہ میں اب سینکڑوں لوگوں میں ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہوں تو وہ ہنس کر
بولے اب تمھاری ڈگریاں اور تمھارے رزلٹ
کارڈز کا کیا فائدہ ہوا تو تم نے ثابت کردیا کہ اصل امتحا ن زندگی کا امتحان ہوتے
ہیں سکول کالجز اور یونیورسٹیوں کے امتحان نہیں ۔

0 Comments