سائنس
کے ساتھ ہمارا رویہ
تحریر:
ایچ –ایم-زکریا
دوسری جنگ عظیم کے دوران
پنجاب حکومت نے عوام پر وار ٹیکس لگادیا تھا' پنجاب کے عوام سے یہ ٹیکس وصول کیا جاتا
تھا بعد ازاں یہ رقم انگریز سرکار کے حوالے کر دی جاتی تھی اور انگریز سرکار یہ رقم
فوجوں کی نقل و حمل پر خرچ کرتی تھی 1945 ء میں دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو اس کے ساتھ
ہی وار ٹیکس بھی ختم ہو گیا لیکن حکومت کے کھاتے میں چند لاکھ روپے بچ گئے اُس وقت
ملک خضر حیات ٹوانہ پنجاب کے وزیر اعلی تھے ملک خضر حیات ٹوانہ کے پاس اس وقت دو چوائس
تھیں وہ یہ رقم انگریز سرکار کے حوالے کر دیتے یا پھر اسے پنجاب کے کسی دوسرے فنڈ میں
جمع کرادیتے ملک خضر حیات ٹوانہ کے دماغ میں
اس رقم کے استعمال کا ایک دلچسپ طریقہ آیا انہوں نے اعلان کیا ہم پنجاب کے چار
ذہین ترین طالب علموں کو اس رقم کے ذریعے بیرون ملک تعلیم کیلئے بھیجوائیں گے پنجاب
سے چار طالب علم چنے گئے اور انہیں وار فنڈ
کی رقم سے پڑھنے کیلئے لندن بھجوا دیا گیا ان طالب علموں میں ایک ایسا طالب علم بھی
شامل تھا جس کا والد جھنگ میں محکمہ تعلیم میں چھوٹے درجے کا افسر تھا اور یہ طالب
علم بیرون ملک تعلیم کا خواب تک نہیں دیکھ سکتا تھا اس طالب علم نے 1940ء میں میٹرک
ریکار ڈ نمبروں سے پاس کیا اور 1946 ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹر کیا یہ پنجاب
کے اخراجات سے لندن چلا گیا اور بعد ازاں اس نے 1979ء میں فزکس میں نوبل انعام حاصل
کیا۔ یہ پاکستان کا واحد نوبل انعام یافتہ
سائنس دان تھا اس طالب علم کا نام ڈاکٹر عبد السلام تھا ڈاکٹر صاحب اٹلی شفٹ ہو گئے اور انہوں نے زندگی میں سائنس کے ہزاروں
طالب علموں کی رہنمائی کی ڈاکٹر صاحب بد قسمتی سے قادیانی مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے
تھے لہذا انہیں پاکستان میں وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کے یہ حق دار تھے۔ ' شہریت کو
مذہب اور فرقہ پرستی سے بالا تر ہونا چاہیے ، شہری کو محض شہری سمجھنا چاہیے خواہ اس
کا تعلق کسی بھی مذہب گر وہ یا فرقے کے ساتھ کیوں نہ ہو۔ رانا بھگوان داس ہندو کمیونٹی
کے ساتھ تعلق رکھتے تھے، لیکن انہوں نے عدالتی
بحران کے دوران بہت شاندار کردار ادا کیا اور ہم بحیثیت پاکستانی ان کے اس کردار پر
فخر کرتے ہیں، بالکل اسی طرح ڈاکٹر عبدالسلام بھی قادیانی یا احمدی ہونے کے باوجود
پاکستانی تھے اور ہمیں ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرنا چاہیے اور ان کی اچیومنٹس پر
فخر بھی، نیشنلزم کو ان چیزوں سے بالا تر ہونا چاہیے اگر امریکا کے عوام بارک حسین
اوبامہ کو اس کے اسلامی نام کے ساتھ صدر منتخب کر سکتے ہیں تو ہم ڈاکٹر عبد السلام
کو ”اون کیوں نہیں کرتے؟ میں ایشو کی طرف واپس آتا ہوں ، ملک خضر حیات ٹوانہ
اگر اس وقت وار فنڈ چار طالب علموں پر خرچ نہ کرتے تو شاید ڈاکٹر عبد السلام جیسی شخصیت
سامنے نہ آتی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کیسے پاکستانی تھے آپ اس کا اندازہ اس
ایک واقعے سے لگا سکتے ہیں. ڈاکٹر عبدالسلام سنہ 1960 سے 1974 تک حکومتِ پاکستان کے سائنس کے مشیر تھے۔
سپارکو اور پاکستان اٹامک انرجی کمشین جیسے ادارہ کے قیام میں بھی انھوں نے نمایاں
کردار ادا کیا۔1961 میں پاکستان خلائی پروگرام شروع کرنے والے پہلے 10 ممالک کی فہرست میں شامل
تھا۔ پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام نے پاکستان اسپیس
اینڈ اپر ایٹموسفئیر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کی بنیاد
رکھی تو اس کو امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ سنہ 1961 میں جب پاکستان کے اُس وقت کے جنرل ایوب خان
امریکہ کے دورے پر تھے تو اُن کے سائنسی مشیرِ اعلیٰ، نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر
عبدالسلام بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے وہاں ناسا کے حکام سے جنرل ایوب
خان کی ملاقات رکھی۔ وہاں حکام نے اس پاکستانی وفد کے سامنے بحرِ
ہند کے اوپر موجود فضا کے متعلق ڈیٹا نہ ہونے کی مشکل رکھی۔ ناسا نے پیشکش کی کہ وہ بحرِ ہند کے آس پاس کے
ممالک کو راکٹ ٹیکنالوجی فراہم کرنے کو تیار ہیں، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اس راکٹ
سے جو بھی ڈیٹا حاصل ہو گا، اس کا تبادلہ ناسا کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔ ڈاکٹر
عبدالسلام نے فورا ہامی بھر لی۔ ناسا کے حکام نے اسی دن ڈاکٹر طارق مصطفیٰ کو
اپنے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے ملک کے دوسرے کونے میں بحرِ اوقیانوس کے کنارے واقع
والپس آئی لینڈ راکٹ رینج بھیج دیا، جہاں اُنھیں تمام آلات اور سامان کے متعلق
بریفنگ دی گئی۔ پوری رات وہ اپنی رپورٹ مرتب کرتے رہے اور اگلے
دن وہ دوبارہ واشنگٹن میں ناسا کے دفتر میں دوبارہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ اپنی
رپورٹ کے ساتھ پہنچے۔ اسی دن ناسا نے پاکستان سے کہا کہ اگر آپ ہامی
بھریں، تو ہم یہ پروگرام شروع کر سکتے ہیں۔ اور اُس کے صرف نو ماہ بعد ہی سونمیانی میں نہ
صرف راکٹ رینج بھی بنا لی گئی بلکہ رہبر سیریز کے اولین راکٹ لانچ بھی کر دیے گئے۔ سات
جون 1962 کی بات ہے، پاکستان کے پانچ نوجوان سائنسدانوں کا ایک گروہ ڈاکٹر
عبدالسلام کے ہمراہ بلوچستان کے ساحلی علاقے سونمیانی میں جمع ہے۔ یہ
تمام سائنسدان پاکستان کے پہلے راکٹ کو خلا میں بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سورج
غروب ہو چکا ہے اور رات کے آٹھ بجنے میں ابھی سات منٹ باقی ہیں۔ پھر
کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوتا ہے۔ تھری، ٹو، ون۔۔۔ اور پاکستان کا پہلا راکٹ ’رہبر ون‘ کامیابی سے
بالائی فضا میں لانچ ہو کر اپنے بعد آنے والے مزید راکٹس کے لیے ایک رہبر بن جاتا
ہے۔ صرف یہی نہیں، اس لانچ کے ساتھ ہی پاکستان مسلم دنیا سمیت جنوبی ایشیا کی
وہ پہلی قوت بنا جس نے کامیابی سے خلائی تجربہ سرانجام دیا۔ اب اس واقعے کو 63 سال ہو چکے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے ٹیلی ویژن پر گفتگو کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا ، پروگرام
میں میزبان تین سائنس دانوں کے ساتھ بحث میں مصروف تھا میزبان نے ایک سائنس دان سے
پوچھا " پاکستان میں سائنس دان کتنے ہیں محترم سائنس دان نے فوراجواب دیا تقریبا
چار ہزار۔ میزبان نے اگلا سوال پوچھا ان چار
ہزار سائنس دانوں نے آج تک کیا ایجاد کیا "سائنس دان نے انکار میں سر بلا کر جواب
دیا کچھ بھی نہیں"۔ ہماری یونیورسٹیوں سے ہر سال سائنس کے ہزاروں طالب علم نکلتے ہیں ان میں سے
دو تین سو طالب علم پی ایچ ڈی کے لئے ملک سے باہر بھی جاتے ہیں لیکن پچھلے 75 برسوں
میں ہمارے سائنس دانوں نے ملکی ترقی میں کچھ کنٹری بیوٹ نہیں کیا ہمارے ملک میں آج
تک تین جینوئن سائنس دان پیدا ہوئے ہیں ڈاکٹر
عبد السلام" ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی اور ڈاکٹر عبد القدیر۔ ہم نے ان تین سائنس
دانوں کے ساتھ تاریخی سلوک کیا ہم نے ڈاکٹر عبد السلام کو قادیانی قرار دے کر ملک بدر
کر دیا وہ جوں ہی کراچی ائیر پورٹ سے اڑے 13 ترقی یافتہ ممالک نے انہیں شہریت کی پیش
کش کر دی اور اٹلی گئے اٹلی نے ان کے نام سے ایک جدید ترین لیبارٹری بنائی اور آج یہ
لیبارٹری ہر سال چالیس پچاس بڑے سائنس دان پیدا کر رہی ہے ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی
نے بلڈ پریشر کی دوا ایجاد کی، جرمنی نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا لیکن ہم ان کا نام
تک بھول گئے پیچھے رہ گئے ڈاکٹر عبد القدیر ۔ڈاکٹر صاحب نے تیسری دنیا کے ایک انتہائی
پسماندہ ملک کو جوہری طاقت بنایا ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ یہ ہے ہماری سائنس پر ستی۔
سائنس کے ساتھ ہمارا رویہ ہمیشہ سے دلچسپ رہاہے
۔
.jpg)
0 Comments