ہمارے نوجوان کیا کریں
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
پاکستان میں اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان ہیں ، پاکستان
کی 35 فیصد آبادی کی عمر 18 سے 22 سال ہے آپ اس کا تقابل چین، امریکہ اور یورپ سے کریں، چین کی 17 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ،امریکہ
میں 15 فیصد لوگ نوجوان ہیں جبکہ پورے یورپ میں صرف 21 فیصد نوجوان پائے جاتے ہیں
لہذا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں چھ کروڑ نوجوان ہیں اور آج ان سب کی
زبانوں پر یہی سوال ہے ”میں کیا کروں“ یہ نوجوان جذبے صلاحیت اور آگے بڑھنے کی
امنگ سے لبریز ہیں لیکن بد قسمتی سے اس ملک میں ان کے لئے کوئی راستہ یا منزل نہیں،
یہ لوگ علی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ملک میں ان کے لئے جابز ہیں چنانچہ یہ
لوگ گھروں میں چار پائیاں توڑتے ہیں، گلیوں اور بازاروں میں آوارہ پھرتے ہیں، فیس
بک ، ٹوئٹر پر نفرت اور آوارگی کے ٹرینڈ چلاتے ہیں یا پھر شدت کی اس وادی میں نکل
جاتے ہیں جس کے آخر میں موت کے سوا کچھ نہیں ہو تا۔ پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ 45
لاکھ تعلیم یافتہ بے روز گار موجود ہیں اور عالمی اندازوں کے مطابق جس ملک میں 50
لاکھ ذہین اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متحرک نوجوان بے روز گار ہوں اس ملک کا لاء اینڈ
آرڈر خطرے کا شکار ہو جاتا ہے کمپیوٹر ماہرین کا کہنا ہے جب کسی کمپیوٹر ایکسپرٹ
کو نوکری نہیں ملتی تو وہ کمپیوٹر ہیکر " بن جاتا ہے وہ ایسے وائرس ایجاد
کرتا ہے جو پوری دنیا کے کمپیوٹر ز تباہ کر سکتے ہیں امریکہ کی ایک سافٹ وئیر کمپنی
صرف ہیکرز کو نوکری دیتی ہے اس کمپنی کا کہنا ہے ایک ہیکر سو سافٹ وئیر انجینئرز
کے برابر ہوتا ہے پوری دنیا میں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کا خیال رکھا جاتا ہے امریکہ میں
اگر مارکیٹ میں دو نوجوانوں کی ضرورت ہے تو وہ تیسرے نوجوان کو مارکیٹ میں نہیں
آنے دیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کیہ تیسر انو جوان پوری مارکیٹ کی نفسیات خراب کر
دے گا 1960 ء تک یورپ میں پاکستان جیسا تعلیمی نظام تھا وہاں بھی سیکنڈری بور ڈز
ہوتے تھے اور یہ بورڈز ہر سال لاکھوں بچوں کو میٹرک کی سند دے کر معاشرے میں پھینک
دیتے تھے اُن میں سے نصف نوجوان فیکٹریوں میں چلے جاتے تھے اور نصف کالجوں کا رخ
کرتے تھے کالجوں سے فارغ ہونے والے بچوں میں سے چند یونیورسٹیوں میں پہنچتے تھے
اور باقی عملی زندگی شروع کر دیتے تھے لیکن پھر انہیں معاشرتی مسائل کا سامنا کر
نا پڑا کیونکہ یورپ میں لاء ائنڈ آرڈر اور بے روزگاری کا مسئلہ پیدا
ہو گیا چنانچہ یورپ نے اپنا نظام بدل دیا یورپ نے سکول کی تعلیم کو کالج تک پھیلا
دیا اور کالج کو یونیورسٹی میں ضم کر دیا انہوں نے یونیورسٹیوں کو حالات حاضرہ کے
مطابق اپنا سلیس تبدیل کرنے اور تعلیم کا دورانیہ طے کرنے کا اختیار بھی دے دیا
انہوں نے عملی تربیت کو تعلیم کا حصہ بنا یا اس کے دو ستائج نکلے یونیورسٹیاں مارکیٹ
کی ڈیمانڈ دیکھ کر سلیبس میں تبدیلیاں کرنے لگیں اور دوسرا وہاں کے طالب علم ریسرچ
اور انٹرن شپ کے نام پر تعلیم کے دوران مختلف کمپنیوں اور اداروں کے ساتھ کام شروع
کر دیتے ہیں یہ انٹرن شپ بعد ازاں ان کا تجربہ سمجھی جاتی ہے اس سسٹم سے طالب
علموں کو اپنی صلاحیتوں اور کمپنیوں کو طالب علموں کے معیار کا پتہ چلتارہتا ہے
چنانچہ وہاں کوئی طالب علم یو نیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد فارغ نہیں رہتا جبکہ
پاکستان میں اس سے بالکل الٹ ہے ہمارا تعلیمی نظام تین حصوں میں تقسیم ہے سکول، کالج اور یو نیورسٹی ان تینوں حصوں کا نظام اس
قدر تیز اور آسان ہے کہ اس میں ایک طرف سے بچہ ڈالا جاتا ہے اور وہ دوسری سے ڈگری
لے کر باہر آجاتا ہے۔ جب وہ مارکیٹ میں آتا ہے تو اس کے پاس علم ہوتا ہے اور نہ ہی
تجربہ۔ لہذا کوئی کمپنی اسے نوکری دینے کے لئے تیار نہیں ہوتی آج سے دس پندرہ برس
پہلے تک گور نمنٹ سیکٹر نوکری کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا تھا لیکن اب یہ سیکٹر سکڑتا
چلا جارہا ہے سرکاری اداروں میں نوکریاں کم ہوتی چلی جارہی ہیں دس دس سال تک کسی محکمے
میں کوئی آسامی نہیں نکلتی اور اگر نکلتی
ہے تو ایک نشست کیلئے ایک ایک لاکھ درخواستیں آجاتی ہیں، چند رو زپہلے فیصل آبادشہر
میں 1600 کانسٹبلز کی آسامیاں نکلی تھیں ۔
اس کے لیے 35 ہزار درخواستیں جمع ہو ئیں اور ان میں بی اے اور ایم اے نوجوان تک
شامل تھے، موٹروے پولیس کیلئے آسامیاں نکلیں تو ان کے لیے ایم اے ، ایل ایل بی اور
ایم بی اے نوجوانوں نے درخواستیں دیں ، اسی طرح سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات
میں ڈاکٹر اور انجینئر اپلائی کرتے ہیں اور یہ لوگ امتحان پاس کر کے غیر متعلقہ
شعبوں میں نوکریاں کرتے ہیں۔ سوال
پیدا ہو تا ہے ہمارے ملک میں کالجوں، یو نیورسٹیوں اور سرکاری ملازمتوں تک پہنچنے
والے خوش نصیبوں کی تعداد کتنی ہوتی ہے ؟ صرف پانچ فیصد۔ جی ہاں ہماری آبادی کے صرف پانچ فیصد لوگ اعلی تعلیم
اور سرکاری نوکریوں تک پہنچ پاتے ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے باقی 95 فیصد لوگ اور
30 فیصد نوجوان کیا کرتے ہیں ؟ یہ وہ حقیقت ہے جس کے بطن سے ہمارے مسائل پیدا ہوتے
ہیں، جس کی کوکھ سے لاکھوں حقیقتیں جنم لیتی ہیں۔ اس وقت اس ملک کی 35 فیصد آبادی نوجوانوں
پر مشتمل ہے جن کی زندگی کی ٹنل کے آخر میں
کوئی روشنی نہیں ، جن کی زندگی کا کوئی مقصد، کوئی نظریہ نہیں، نفرت اور آوارگی کے
ٹرینڈ چلانے والے بن رہے ہیں ، نشے کی لت میں مبتلا ہو رہے ہیں ماڈرن ازم کی سیڑھیاں
چڑھتے جارہے ہیں ، ڈکیتیوں ، اغواء برائے تاوان اور چوریوں میں ملوث ہو رہے ہیں یا
پھر مذہب کی اس حد کو چھورہے ہیں جس پر چڑھنے والے لوگ اپنے نظریے اپنے خیال اور اپنے مکتبہ
فکر کو لازوال سچ جبکہ دوسروں کے مکتبہ فکر ، دوسروں کے خیال اور دوسروں کے نظریات
کو باطل عظیم سمجھتے ہیں جس پر پہنچنے والوں کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے،
مر جانا اور مارد ینا۔ آج پورا معاشرہ آوارگی کا شکار ہے، ہم میں سے ہر شخص خطرے
کا شکار ہو چکا ہے، ہم ایک آوارہ معاشرہ بنتے
جارہے ہیں۔ ہم اس بخار سے کیسے نکل
سکتے ہیں، یہ میں آپ کو اگلے کالم میں بتاؤں گا۔

0 Comments