برف کا دوزخ
تحریر: ایچ –ایم-زکریا
گر میوں میں یہاں کا درجہ حرارت منفی سولہ سے 32 ہو تا ہے اور
سردیوں میں منفی 50 تک چلا جاتا ہے، موسم کی اس شدت میں زندگی ممکن نہیں ہوتی
چنانچہ دنیاکی جب سے تخلیق ہوئی ہے یہاں
پر زندگی نے سر نہیں اٹھایا۔ 77 کلو میٹر طویل اور 4.8 کلو میٹر چوڑے اس علاقے میں
آج تک گھاس کے ایک پتے نے جنم نہیں لیا اس علاقے میں کسی جانور کسی پر ندے نے بھی
پر نہیں مارا ۔یہ لمبائی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرابڑا گلیشیئر ہے لوگ اسے صدیوں سے
سیاچن کہتے آرہے ہیں مقامی زبان میں اس کا مطلب گلابوں کی سرزمین ہے لیکن گلاب آج
تک اس زمین پر نہیں لگا۔ یہ زمین آزادتھی 1984 تک اس پر کسی کا قبضہ نہیں تھا قبضہ
ممکن بھی نہیں تھا منتفی پچاس در جے سینٹی گریڈ پر جہاں زندگی نسوں میں مرجاتی ہو
وہاں کسی کو قبضے کی کیا ضرورت ہوگی لیکن اپریل 1984 ء میں بھارت نے سیاچن پر
اچانک قبضہ کر لیا بھارتی فوج بھارتی علاقے سے ہوتی ہوئی سیاچن پر پہنچی اور اس نے
دنیا کے انتہائی بلند مقام پر چو کی بنائی پاکستان کو معلوم ہوا تو پاک فوج بھی سیاچن
پہنچ گئی ۔یہ دنیا کا انتہائی مشکل میدان جنگ ہے اس میدان کو مینٹین کرنا تقریبا
ناممکن ہے، آپ سیاچن کی چوٹیوں پر آکسین ماسک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، سیاچن
کیلئے خصوصی لباس بھی درکار ہے آپ اس بھاری بھر کم لباس، جوتوں اور ہیلمٹ کے بغیر
بھی وہاں چند سیکنڈ نہیں گزار سکتے ،منفی چالیس درجہ حرارت پر دنیا کے تمام مائع جم
جاتے ہیں لہذا آپ اس درجہ حرارت پر قدرتی تقاضے پورے نہیں کر سکتے آپ بول و براز
کار سک بھی نہیں لے سکتے کیونکہ اس کیلئے آپ کو جسم کے چند حصے ننگے کرناپڑتے ہیں
اور اس کم ترین درجہ حرارت میں جسم ننگا کرنے کا مطلب موت ہوتی ہے آپ اگر انگلی
باہر نکالتے ہیں تو آپ کی انگلی جڑ سے غائب ہو جاتی ہے آپ ہیلمٹ اتارتے ہیں تو آپ
گردن سے لے کر ہال تک جم جاتے ہیں اور اس کا قطعی نتیجہ موت ہوتی ہے ،آپ کے پاؤں
کا کوئی حصہ ننگا رہ جائے یا آپ چند گھنٹے منفی چالیس پچاس درجہ حرارت پر چلتے ہیں
تو آپ کا پاؤں ٹخنے سے شل ہو جاتا ہے اور ڈاکٹر آپ کا پاؤں کاٹنے پر مجبور ہو جاتے
ہیں ،آکسیجن ماسک کے مسلسل استعمال کی وجہ سے انسان قوت سماعت، قوت بینائی اور
سونگھنے کی حس بری طرح متاثر ہو جاتی ہے اور آپ کی حسیات آدھی رہ جاتی ہیں ، آپ
پیشاب کے خوف کی وجہ سے کھاتے پیتے نہیں ہیں' آپ محض ملی وٹامن اور طاقت کی دواؤں
پر گزارہ کرتے ہیں، سیاچن کے آخری میدان میں کوئی انسان تمام تر حفاظتی اقدامات کے
باوجود بیس دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا چنانچہ فوجیوں کو آخری میدان میں بیس
دنوں کیلئے بھجوایا جاتا ہے لیکن ان میں سے بھی ہر تیسرا شخص پورا واپس نہیں آتا
اس کا کوئی نہ کوئی حصہ ”سنو ہائیٹ کا شکار ہو جاتا ہے، یہ آنکھ ،کان، ہا تھ یا ٹانگ سے محروم ہو جاتا ہے اور فوج میں
اس وقت سینکڑوں جوان اور آفیسر ایسے ہیں جو سیاچن میں اپنے اعضاء گنواکر واپس آئے
یہ لوگ جب تک اس میدان جنگ میں رہتے ہیں یہ کھاتے اور پیتے نہیں ہیں، یہ محض ”ول
پاور “ محض اللہ کی مدد کے سہارے زندہ رہتے ہیں، منفی چالیس پچاس درجہ
حرارت پر کوئی چیز کوئی دھات آپ کی جلد سے ٹکرا جائے تو یہ گوشت کے اندر پیوست ہو
جاتی ہے اور اسے نکالنے کیلئے جلد کا وہ حصہ کا نا پڑتا ہے یہ ہمارے جوان اپنی
ٹانگوں پر چلتے ہوئے سیاچن پہنچتے ہیں لیکن ان کی اکثریت سٹریچر پر واپس آتی ہے
لیکن اس کے باوجود جوان آج تک شکایت کا کوئی حرف زبان پر نہیں لائے یہ 28 برسوں سے
مسلسل قربانی سے رہے ہیں اور ان میں سے کسی نے آج تک قوم سے اس قربانی کا صلہ نہیں
مانگا۔ یہ لوگ 28 برسوں سے برف کے اس دوزخ میں کیسے زندگی گزار رہے ہیں ،ہم اس کا
اندازہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس ٹھٹھرتی سردی میں اپنے ان ہیروز کو نہیں بھولناچاہیے
اور کچھ نہیں کرسکتے تو ہم ان کے لیے دعاگو تو ہو سکتے ہیں یہ آج بھی قوم کی حفاظت
کر رہے ہیں۔
.jpg)
0 Comments