نوجوانوں کے لیے کرنے کے آسان کام

تحریر: ایچ- ایم- زکریا



جوانی ایک توانائی کا نام ہو تا ہے اور توانائی ہمیشہ بے لگام ہوتی ہے اس کو رخ ، منزل اور لگام تعلیم، تعلیمی ادارے ، ٹیچر اور  معاشرے  دیا کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم نے آج تک ان نوجوانوں کی توانائیوں کو کوئی رخ دینے یا ان سے کوئی اجتماعی  کام لینے کی کوشش نہیں کی چنانچہ یہ توانائی اب اپنا راستہ خود تلاش کر رہی ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں سے کچھ سیدھا راستہ اختیار کر لیتے ہیں اور وہ ترقی، خوشحالی اور امن کی پٹری پر آجاتے ہیں جبکہ کچھ  نوجوان نشے کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں،  کچھ  جرائم کار استہ منتخب کر سکتے ہیں یا پھر فرقہ واریت کو اپنامذہب  بنا لیتے ہیں۔اب چونکہ ڈیجیٹل ورلڈ ہے اب پڑھے لکھے نوجوان فیس بک، ٹوئٹر پر سیاسی پارٹیوں کے دفاع اور گالیوں میں لگے رہتے ہیں یاپھر آوارگی کے ٹرینڈ چلاتے رہتے ہیں۔ پوری دنیا کے ماہرین متفق ہیں انسان میں 16 سال کی عمر سے لے کر 25 سال تک موت کا خوف انتہائی کم ہوتاہے اس عمر میں انسان ننگے پاؤں ماؤنٹ ایور یسٹ پر چڑھ جاتا ہے اور ہزار دو ہزار میٹر کی بلندی سے سمندر میں تک چھلانگ لگا دیتا ہے لیکن جوں ہی انسان 25 سال کی حد عبور کرتا ہے موت کا خوف اس کے دروازے پر د ستک دینے لگتا ہے اور وہ سر پر ٹوپی اور گلے پر مفلر لپیٹے بغیر باہر نہیں نکلتا ، یہی وجہ ہے پوری دنیا میں صرف ان فوجیوں کو محاذ پر لڑنے کے لئے بھجوایا جاتا ہے جن کی عمریں 25 سال سے کم ہو تی ہیں فوج میں جوں جوں انسان سینئر ہوتا جاتا ہے وہ محاذ سے پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ جر نیل بن جاتا ہے جرنیلوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ لوگ جنگ لڑا سکتے ہیں لڑ نہیں سکتے ۔اسی طرح آپ مہلک نشوں کو لے لیجیئے مہلک نشوں کے شکار 90 فیصد لوگوں کی عمریں 25 سال سے کم ہو تی ہیں خودکش حملوں کیلئے آئیڈیل عمر 16 سے 22 سال ہوتی ہے لہذا آج دنیا میں جہاں بھی خود کش حملہ ہو تا ہے اس میں استعمال ہونے والے 98 فیصد نوجوانوں کی عمریں 22 سال سے کم ہو تی ہیں ۔ پاکستان میں اس وقت چھ کروڑ نوجوان ہیں یہ چھ کروڑ نوجوان چلتے پھرتے بم ہیں۔ یہ نوجوان اندر سے ابل رہے ہیں ، یہ روز خود کشیاں کر رہے ہیں ، یہ روز ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں میں کیا کروں اور انہیں اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملتا۔جواب نہیں ملتا تو پھر یہ ڈیجیٹل محاذ سنبھال لیتے ہیں جہاں یہ خو دبھی بے عزت ہوتے رہتے ہیں اب نہ ان کے پاس ڈائریکشن ہے اور نہ ہی ان کی زندگی میں کوئی گول ہے  ۔ان نوجوانوں میں سے نصف کوور غلانہ انتہائی آسان ہے چنانچہ یہ لوگ مستقبل میں بجلی، گیس، مہنگائی اور جہالت کے  بحرانوں  کی طرح ایک بہت بڑا بحرا ن ہوں گے۔اور یہ بحران ابھی سے سر اٹھا رہے ہے ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا دنیا میں ہم پہلی قوم ہیں جو اس مسئلہ کا شکار ہیں؟ اس کا جواب یقینا نہیں ہوگا دوسرا سوال یہ ہے دنیا کے دیگر ممالک اپنے آپ کو اس صورتحال سے کیسے بچا رہے ہیں ؟ یہ ایک دلچسپ سٹڈی ہے دنیا کی دس ہزار سالہ سماجی  تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے جو معاشرہ اور جو ملک اپنے بچوں ، اپنے نوجوانوں کیلئے سرگرمیاں تخلیق نہیں کرتے وہ زیاد ہ دیر تک بر قرار نہیں رہ سکتے انسان کی دس ہزار سالہ تاریخ یہ فیصلہ بھی کر چکی ہے کہ انسان کو جسمانی ،ذہنی اور روحانی تین قسم کی سرگرمیاں درکار ہوتی ہیں اور جن معاشروں میں بیک وقت ان تینوں سرگر میوں پر توجہ نہیں دی جاتی وہ معاشرے بھی اپنا توازن کھو بیٹھتے ہیں یورپ، امریکہ اور مشرق بعیدکے تمام ترقی یافتہ ممالک نے انسانی تاریخ اور تجربے سے فائدہ اٹھایا اور انسانی سرگرمیوں کو تین شعبوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ سرگرمیاں سپورٹس، مطالعہ اور آرٹ تھیں ان لوگوں نے سپورٹس کو جسمانی،  مطالعہ کو ذہنی اور موسیقی آرٹ ' ڈرامہ تھیڑ اور فلم کو روحانی سرگرمی قرار دیا اور ان تینوں شعبوں کو بچوں اور بالخصوص نوجوانوں کی زندگی کا حصہ بنادیا ۔ یورپ اور امریکہ میں اس وقت کوئی ایسی تعلیمی ادارہ نہیں جس میں کھیل کا میدان ، لا ئبریر ی اور آڈ یٹوریم نہ ہوں  ۔یہ تینوں چیزیں یورپ ،امریکہ اور مشرق بعید کے بچوں کے سلیبس کا باقاعدہ حصہ ہیں وہاں کا ہر بچہ  کوئی نہ کوئی کھیل ضرور کھیلتا ہے وہ روز انہ لا ئبریری  ضرور جاتا ہے اور وہ آرٹ کی کسی نہ کسی صنف میں حصہ ضرور لیتا ہے  ۔اسی طرح یورپ اور امریکہ کے کسی شہر یا قصبے کو اس وقت تک ٹاؤن کی حیثیت حاصل نہیں ہوتی جب تک اس میں آبادی کے مطابق کھیل کے میدان،  پار کس ، لائبریریاں اور تھیٹر ہال نہ بنائے جائیں امریکہ میں پانچ لاکھ سے کم تعداد میں کتاب شائع نہیں ہوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں چھوٹی بڑی پانچ لاکھ لائبریریاں ہیں اور امریکہ میں چھپنے والی تمام کتا بیں ان تمام لا ئبریر یوں تک ضرور پہنچتی ہیں امریکہ کے شہری اوسطا چھ ہزار صفحات سالانہ پڑھتے ہیں اس وقت دنیا میں سب سے زیاده اخبار ات اور سائل امریکہ میں شائع ہوتے ہیں اور یہ تمام رسائل اور اخبارات خریدے اور پڑھے جاتے ہیں امریکہ اور یورپ کے تمام سکولوں میں لا ئبریری کا پیریڈ ہوتا ہے اس پیریڈ میں ہر طالب علم لا ئبریری جاتا ہے اور اپنی پسند کی کتاب پڑھتا ہے امریکہ میں طالب علموں کیلئے لا ئبریر ی سے کتاب ایشو کرانا ضروری ہو تا ہے اگر کوئی طالب علم کتاب جاری نہ کرائے تو اس کے نمبر کٹ جاتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے سکولوں اور یونیورسٹیوں میں سپورٹس بھی لازمی ہیں، وہاں اس طالب علم کو بیکار سمجھا جاتا ہے جس کے پاس ٹریک سوٹ اور جاگر زنہ ہوں اور جس کی صبح یا شام کا آغاز کھیل سے نہ ہو ، امریکہ کی تمام چھوٹی بڑی کمپنیوں نے دفتروں میں جم بنارکھے ہیں، کمپنیوں کے ور کر زان جمز میں روزانہ ورزش کرتے ہیں، تمام تعلیمی اداروں میں تھیٹر ز اور آڈیٹوریم ہوتے ہیں اور ان میں ڈرامے،  موسیقی کے پروگرام اور مباحثے  ہوتے ہیں اور وہاں معیاری فلمیں دکھائی جاتی ہیں ، اگر ہم پاکستان کا تقابل امریکہ اور یورپ سے کریں تو خود بتایئے ہمارے ملک میں کتنے تعلیمی ادارے ہیں جن میں یہ سہولتیں موجود ہیں؟ حقیقت یہ ہے ہماری نصف یونیورسٹیوں میں سپورٹس کمپلیکس اور آڈیٹوریم  ہی نہیں ہیں، ہمارے 95 فیصد ہائی سکولوں میں کھیل کے میدان اور لائبریریاں نہیں ہیں ، ہمارے 95 فیصد طالب علم سلیبس کے سوا کوئی کتاب نہیں پڑھتے اور ہمارے 98 فیصد بچے زندگی میں کوئی کھیل نہیں کھیلتے، پاکستان کے کسی شہر میں آبادی کے مطابق کھیل کے میدان اور لائبریریاں نہیں ہیں ، پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ملکوں میں ہوتا ہے جن میں اخبارات، رسائل اور کتابوں کا بزنس زوال کا شکار ہے اور جن میں کھیل کے میدانوں  کی جگہ پلازے  اور ریستوران بن رہے ہیں ۔ لہذا پھر سوال پیدا ہوتا ہے پاکستان کے یہ چھ کروڑ نوجوان کیا کریں گے اگر یہ لوگ آوارگی کے ٹرینڈ  نہیں چلائیں گے تو اور کیا کریں گے ، یہ پب جی جیسی گیمز نہیں کھیلیں گے تو اور کیا کریں گے ؟ یہ ایک دوسرے کو گالیاں نہیں نکالیں گے تو اور کیا کریں گے اور  ان کے جذ بے،  ان کی امنگیں اور ان کی ذہانتیں  کس کام آئیں گی، اس میں کوئی شک نہیں ہم ایک اسلامی ملک ہیں، ہم تعلیمی اداروں میں آرٹ اینڈ کلچر اور سینما کی اجازت نہیں دے سکتے لیکن کیا اسلام لائبریریوں، ورزش اور کھیل سے بھی منع کرتا ہے ؟ کیا وہ آڈیٹوریم ، مباحثے اور تقریری مقابلوں سے بھی روکتا ہے۔ کیا ہمارے پاس اتنابھی وقت نہیں کہ ہم سپورٹس اور مطالعے کو تعلیم کا لازمی جزو بنا دیں ، ہم پاکستان کے تمام شہروں میں کھیل کے میدان اور لا ئبریر یاں بنائیں اور ہماری ضلعی حکومتیں جنگی بنیادوں پر کھیل اور مطالعے کی ترویج شروع کریں ،  ہم ہر تحصیل آفس میں ہال  بنائیں اور اس ہال میں ہر ہفتے کوئی نہ کوئی معیاری پروگرام کیا جائے ، اس میں سیمینار ، نمائشیں ، بزنس آئیڈیاز پر بات کی جائے۔ دنیا نے اس کرونا وبا میں آن لائن بزنس کرکے بہت کمایا اگر ہمارے نوجوان بھی اس فیلڈ میں آجائیں تو نہ صرف کام سکیں گے بلکہ ٹرینڈ چلانے کا انھیں وقت ہی نہی ملے گا۔یہ بھی ایمازون، فیس بک مارکیٹنگ،  یوٹیوب پر کام کریں انشاء اللہ کامیاب ہو جائیں گے۔ اگر ہم یہ کر لیں تو ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں آجائے گا، نہ صرف افراد  ترقی کریں گے  بلکہ ملک کو بھی ہم قائد کے بتائے ہوئے ٹریک پر لے آئیں گے اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں سر اٹھا کر کھڑے ہوں گے۔