خوشی
اور سکون کا سفر
تحریر:
ایچ-ایم -زکریا
انسان
اس دنیا میں صرف تین چیزیں تلاش کرتا ہے، یہ تین چیزیں اس کی پہلی اور آخری ضرورت
ہیں۔ ان تین چیزوں میں پہلی چیز خوشی ہے، دوسری سکون ہے اور تیسرا آرام ہے۔ ہمیں دنیا میں ان تین
چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں چاہیےہمارا ہر کام خوشی کی تلاش سے شروع ہوتا ہے اور خوشی
پر پہنچ کر ہوتا ہے، ہم اگر خوشی تک نہ پہنچ سکیں تو ہماری ہر کام یابی، ہر
اچیومنٹ بے معنی ہو جاتی ہے۔ سکون ہماری زندگی کا دوسرا بڑا مقصد ہے، ہم عبادت سے
لے کر خدمت تک اور اندھے کو سڑک پار کرانے سے حج تک تمام چھوٹے بڑے فریضے سکون کے
حصول کے لیے ادا کرتے ہیں اور اگر ہمیں ان تمام فریضوں میں سکون نہ ملے تو ہم
انہیں فوراً چھوڑ دیں اور ہماری زندگی کا تیسرا ٹارگٹ آرام ہوتا ہے، ہماری ساری
کام یابیاں، ہماری ساری کوششیں اور ہماری ساری جدوجہد آرام پر آ کر ختم ہو تی
ہے، آرام دہ گاڑی، آرام دہ اور کشادہ گھر، گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم
کمرہ، آرام دہ صوفہ، آرام دہ بیڈ، آرام دہ ڈرائنگ روم، آرام دہ اور خوب صورت
فارم ہائوس اور ساحل سمندر پر آرام دہ ہٹ، یہ کیا ہیں؟ یہ سب ہماری کارکردگی،
ہماری کام یابی اور ہماری کوشش کا آخری نتیجہ ہیں، یہ دنیا کے ہر انسان کی زندگی
کے مقاصد ہیں۔ انسان کے آرام، سکون اور خوشی کی عمارت ترقی پر استوار ہے، یہ جب
تک ترقی نہیں کرتا، یہ اس وقت تک خوشی، سکون اور آرام سے لطف نہیں لے سکتااورترقی
اور اس کے بعد آرام، سکون اور خوشی انصاف اور مساوات کے بغیر ممکن نہیں اور اسلام
دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے مساوات اور انصاف دونوں کو اپنی روح کا درجہ دیا"
اسلام کے پانچ ارکان ہیں۔ توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اورحج۔ یہ پانچوں ارکان مساوات
ہیں، کلمہ ہر شخص کے لیے مساوی ہے، ہر مسلمان خواہ وہ عربی ہو یا عجمی۔ خواہ یہ
نوکر ہو یا بادشاہ اور خواہ یہ امیر ہو یا غریب اس کے لیے ایک ہی کلمہ ہے اور یہ
خواہ کتنا ہی بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو جائے یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب
تک یہ لاالٰہ الااللہ محمد الرسول اللہ ﷺ نہ کہہ دے اور یہ کلمہ کسی کے لیے چھوٹا ہوتا
ہے اور نہ ہی بڑا۔ نماز
دوسرا رکن ہے، یہ رکن ہر مسلمان پر فرض ہے، آپ بادشاہ ہیں آپ کو نماز پڑھنا پڑے
گی اور آپ غلام ہیں نماز آپ پر بھی فرض ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے وقت،
رکعتیں، نماز کا آغاز اور نماز کا طریقہ کاریکساں ہے اور جب نماز کے لیے صفیں بنتی
ہیں تو بادشاہ کو اپنے نوکر کے کندھے کے ساتھ کندھا جوڑ کر کھڑا ہونا پڑتا ہے،
اسلام میں ہر گز ہر گز یہ گنجائش موجود نہیں کہ آپ بادشاہ ہیں تو آپ وضو کے بغیر
نماز پڑھ لیں، آپ امیر ہیں تو آپ کے لیے نماز مختصر ہو جائے گی اوراگر آپ ملازم
ہیں، غریب ہیں یا پھر غلام ہیں تو آپ کے لیے رکعتیں بڑھ جائیں گی، تمام مسلمان
ایک ہی طریقے سے اورایک ہی مقامی وقت پر ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا جوڑ کر نماز
ادا کرتے ہیں اور اس وقت کوئی بڑا اور کوئی چھوٹا اور کوئی غلام اور کوئی بادشاہ
نہیں ہوتا۔ روزہ
اسلام کاتیسرا رکن ہے، یہ بھی تمام مسلمانوں پر فرض ہے، بادشاہ ہو یا غلام، یہ ایک
ہی وقت سحری کریں گے اور ایک ہی وقت افطار کریں گے اور ان میں سے کوئی شخص اس
دوران کوئی چیز کھا یا پی نہیں سکے گا۔ رمضان بادشاہ کیلئے بھی رمضان ہو گا اور
غلام کیلئے بھی رمضان۔ کسی کیلئے شرعی عذر کے بغیرکوئی رعایت نہیں۔ آپ زکوٰۃ پر آ جائیں،
ہر مسلمان پر آمدنی اور بچت کی ایک خاص حد کے بعدزکوٰۃ لاگو ہو جاتی ہے اور یہ
زکوٰۃ دیے بغیر مسلمان نہیں ہو سکتا اور اگر یہ زکوٰۃ سے انکار کرے تو حضرت ابوبکر
صدیقؓ جیسے شخص پر اس کے خلاف جنگ لازم ہو جاتی ہے اور اس میں بھی کسی کو کوئی
رعایت نہیں، اس میں بھی تمام مسلمان برابر ہیں۔ آپ حج کو ملاحظہ کیجئے،
حج ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے، حج کے دن بھی معین ہیں اور ان کے تمام مناسک بھی،
آپ بادشاہ ہیں یا بادشاہ کے نوکر ہیں، آپ کوایک جیسا احرام باندھا پڑے گا، آپ
کو ایک ہی مقام سے حج شروع کرنا پڑے گااور آپ کا حج بھی ایک ہی مقام پر اختتام
پذیر ہو گا، آپ کو عرفات میں بھی ٹھہرنا پڑے گا، منیٰ بھی جانا ہوگا، مزدلفہ میں
بھی اورآپ کو صفا اور مرویٰ کے پھیرے بھی لگانا ہوں گے، شیطان کو کنکریاں بھی
مارنا ہوں گی اور کعبہ کا طوائف بھی کرنا ہوگا، حج میں آپ کو امارت، اقتدار اور
اختیار کی وجہ سے کسی جگہ کوئی رعایت نہیں ملے گی، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ سعودی
شاہ ہیں توآپ احرام کے بغیر حج کر لیں یا پھر آپ منیٰ نہ جائیں اور آپ کا حج
مکمل ہو جائے اور دنیا کے امیر ترین شخص ہیں تو آپ رمضان میں حج کر لیں، آپ
مسلمان ہیں تو آپ کومخصوص دنوں میں اس پورے عمل سے گزرنا ہوگا"۔ چنانچہ ہم مسلمان جب تک اسلام کے
بنیادی ارکان کی مساوات کو فالو نہیں کرتے اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے اور ہم جب مساوات قائم کر لیتے ہیں تو پھر انصاف ہم سے
دور نہیں رہتا، آپ خود بخود منصف ہو جاتے ہیں، اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے
انصاف کو ججوں تک محدود نہیں کیا بلکہ اس نےہر شخص کو منصف بنا دیا، جس نے ہر
مسلمان کو حکم دیا تم اگر چرواہے ہو تو تم جج ہو اور تم سے آخرت میں تمہاری
بھیڑوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اگر تم شوہر ہو، باپ ہو یا اولاد ہو تو تم
سے والدین کے ساتھ حسن سلوک، اولاد کی اچھی پرورش اور بیوی کو خوش رکھنے کےبارے
میں پوچھا جائے گا چنانچہ ہم جب تک اپنی روزانہ کی زندگی میں انصاف قائم نہ کریں،
ہم اپنے زیر اطاعت لوگوں کے ساتھ انصاف نہ کریں، ہم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو
سکتے۔ تاریخ
کا سنہرا ترین دور حضرت عمرفاروقؓ کا عہد تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے دور کو دو
لفظوں میں بیان کرنا ہوتو وہ لفظ ہوں گے "عدل فاروقی" چناں چہ عدل اسلام
کا سنہرا اصول بھی ہے اور روح بھی۔ مساوات اور انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی
نہیں کرتا، آپ آج کی پوری ترقی یافتہ دنیا پر نظر ڈالیں، آپ کو دنیا کا ہر وہ
ملک ترقی یافتہ دکھائی دے گا جس میں مساوات اور انصاف ہے اور آپ کو ہر وہ ملک غیر
ترقی یافتہ دکھائی دے گا جس میں مساوات اور انصاف نہیں ہوگا، خواہ اس ملک کے تمام
لوگ حاجی ہوں اور ہر دوسرے دروازے کے بعد مسجد ہو اور اس کی زمین میں سونے، ہیروں
اور پٹرول کے سمندر ہوں لہٰذا جب تک ہم مساوات اور انصاف قائم نہیں کرتے، ہم اس وقت تک ترقی نہیں کریں گے اور ہم جب تک ترقی نہیں کرتے اس وقت تک ہمارا آرام،
خوشی اور سکون کا سفر شروع نہیں ہوگا"۔
.jpg)
0 Comments