بچوں کا سانتا کلاز

تحریر: ایچ-ایم-زکریا


ترکی کے صوبے اناطولیہ میں ایک چھوٹا سا ٹاؤن ہوتا تھا مائیرا (Myra)‘ اس ٹاؤن کے لوگ یونانی عیسائی تھے‘ آبادی کے عین درمیان چھوٹا سا چرچ تھا‘ چوتھی صدی عیسوی میں اس چرچ میں سینٹ نیکولس نام کا ایک بشپ ہوتا تھا‘ وہ دراز قد تھا‘ داڑھی لمبی اور سفید تھی اور وہ ہو‘ ہو‘ ہو کی آواز میں قہقہہ لگاتا تھا۔ بشپ بچوں میں بہت مشہور تھا‘ وہ سارا سارا دن بچوں کے ساتھ کھیلتا رہتا تھا‘ کرسمس کے موقع پر وہ ایک دل چسپ کام کرتا تھا‘ وہ ٹافیاں‘ لکڑی کے کھلونے اور جوتے بناتا تھا‘ پیک کرتا تھا اور یہ تحفے 24 اور 25 دسمبر کی درمیانی رات گاؤں کے مختلف درختوں پر باندھ آتا تھا‘ یہ پیکٹ غریب کے بچوں کے لیے کرسمس گفٹ ہوتے تھے‘لوگ سینٹ نیکولس کو سانتا کہتے تھے۔ سانتا کے تحائف کی یہ روایت آہستہ آہستہ پوری عیسائی دنیا میں پھیل گئی اور دنیا بھر کے چرچز نے بچوں کو سانتا کے تحفے دینا شروع کر دیے لہٰذا آج کرسمس ٹری‘ سانتا کے تحائف‘ ابلتی ہوئی وائین اور ٹرکی کا گوشت یہ چاروں کرسمس کا لازمی حصہ بن چکے ہیں‘ سانتا (سینٹ نیکولس) مائیرا کے بچوں کو تحائف کی ایک اسٹوری بھی سناتا تھا‘ اس کا کہنا تھا قطب شمالی میں جہاں ہر وقت برفیں رہتی ہیں وہاں اصل سانتا رہتے ہیں‘ ان کی داڑھی سفید اور لمبی ہوتی ہے‘ سر پر سرخ پھندے والی سفید ٹوپی پہن رکھی ہوتی ہے‘ وہ سرخ گاؤن میں ملبوس ہوتے ہیں۔کمر پر سیاہ رنگ کی بیلٹ ہوتی ہے اور چمڑے کے بڑے بڑے جوتے پہن رکھے ہوتے ہیں‘ وہ اپنی ورکشاپ میں سارا سال بچوں کے لیے کھلونے بناتے ہیں اور پھر 24 دسمبر کی رات رین ڈیئر پر بیٹھ کر مائیرا آتے ہیں اور بچوں کے لیے تحفے چھوڑ جاتے ہیں‘ سینٹ نیکولس بچوں کو خوش کرنے کے لیے خود بھی سانتا بن جاتا تھا اور بچے کرسمس کے دن اس کے ساتھ کھیلتے تھے‘ سینٹ نیکولس کا انتقال ہو گیا تو اسے چرچ میں دفن کر دیا گیا‘ 1087 میں مائیرا کو مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ سینٹ نیکولس مشہور تھا چناں چہ عیسائی تاجر اس کی ہڈیاں نکال کر لے گئے‘ اٹلی میں باری شہر میں چرچ بنایا گیا اور سینٹ نیکولس کی ہڈیاں وہاں دفن کر دی گئیں‘ ہڈیوں کا کچھ حصہ بعد ازاں وینس میں بھی شفٹ کر دیا گیا‘ 1923 میں مائیرا ترکی کے حصے آ گیا‘ ترکی نے مائیرا کے عیسائی یونان کے حوالے کر دیے اور یونان سے مسلمان لے لیے جس کے بعد سینٹ نیکولس کا چرچ ختم ہو گیا‘ مائیرا کا نام آج کل ڈیمرے (Demre) ہے۔ سانتا کلاز اور فن لینڈ کے درمیان دل چسپ تعلق ہے‘ پوری دنیا میں بچوں کو بتایا جاتا ہے سانتا کلاز قطب شمالی میں رہتا ہے اور یہ 24 دسمبر کی رات رین ڈیئر پر بیٹھ کر تحفے لے کر بچوں کے گھروں میں آتا ہے‘ فن لینڈ کے بچے اس کہانی کو اصل سمجھتے تھے چناں چہ یہ والدین سے سانتا کلاز کے گھر جانے کی ضد کرتے تھے۔ یہ ضد حکومت تک پہنچی اور حکومت نے کمال کر دیا‘ اس نے قطب شمالی پر سانتا کلاز کا پورا گاؤں آباد کر دیا‘ یہ گاؤں سانتا کلاز ویلج کہلاتا ہے‘ گاؤں 1985 میں کھلا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر کےعیسائی  بچوں کا قبلہ بن گیا‘ دنیا کے 199 ملکوں سے دو کروڑ بچے سانتا کو خط لکھتے ہیں اور یہ خط مختلف ڈاک خانوں سے ہوتے ہوئے سانتا کے ٹاؤن پہنچ جاتے ہیں‘ نومبر اور دسمبر میں سانتا کو روزانہ ساڑھے تین ہزار خط موصول ہوتے ہیں‘ دنیا بھر سے بچے سانتا کے ٹاؤن بھی آتے ہیں‘ ٹاؤن فن لینڈ کے شہر رووا نیامی (Rovaniemi) کے مضافات میں واقع ہے۔ مسافروں کو وہاں پہنچنے کے لیے ہیلسنکی سے اولو کی سوا گھنٹے کی فلائٹ لینی پڑتی ہے اور پھر اولو سے رووا نیامی تین گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ سانتا ٹاؤن قطب شمالی کے دائرے آرکٹیک سرکل پر آتا ہے‘ یہاں پر لوہے کے دو ستون ہیں‘آپ قطب شمالی میں داخل ہو جاتے ہیں‘ ٹاؤن میں سانتا کلاز کا گھر‘ دفتر‘ ڈاک خانے‘ ڈائننگ ہال اور پلے ایریاز ہیں‘ بچے آتے ہیں‘ سانتا سے ملتے ہیں‘ تصویریں بناتے ہیں اور آرکائیو میں اپنے خط دیکھتے ہیں‘ یہ ڈاک خانے میں سانتا کی طرف سے اپنے نام خط بھی پوسٹ کرتے ہیں اور یہ خط ان کے واپس پہنچنے سے پہلے پہلے ان کے گھر پہنچ جاتا ہے‘ ٹاؤن میں سانتا کے محل‘ کافی شاپس اور ریستوران بھی ہیں اور سوونیئر شاپس بھی اور اس کے ہسکی کتوں اور رین ڈیئر کے فارم بھی۔ قطب شمالی کے لوگ کم زور کتوں کو آگے اور مضبوط کو پیچھے جوتتے ہیں‘ گاڑی کے ساتھ مضبوط کتے ہوتے ہیں اور آگے کم زور‘ ڈرائیور مخصوص آوازیں نکالتا ہے اور کتے اٹھ کر دوڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ یہ آخر میں منہ سے پچ پچ کی آوازیں نکالتا ہے اور کتے رک جاتے ہیں۔ میں نے سینٹ نیکولس کی یہ کہانی کسی کتاب میں پڑھی تھی تو سوچا اپنے پڑھنے والوں اور مسیحی برادری کے دوستوں سے ان کی خوشی کے موقع پر شئیر کر دوں۔