ماڈرن چور اور ڈاکو

تحریر : ایچ-ایم-زکریا



ماڈرن چور اور ڈاکو

تحریر : ایچ-ایم-زکریا

ایک آدمی کو چند دن قبل کسی خاتون کی کال آئی خاتون کی آواز بڑی رومانوی تھی خاتون نے انہیں بتایادہ انہیں کسی ڈنر میں ملی تھی اور ملتے ہی ان کی گرویدہ ہو گئی اب اس کا دن کا چین  ختم ہو چکا ہے اور راتوں کی نیند اڑ گئی ہے وہ اب ان کے بغیر نہیں رہ سکتی اور یہ ان سے دوستی کرنا چاہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس آدمی نے انکار کر دیا لیکن خاتون نے ہار نہیں مانی اور وہ انہیں دن میں دس دس بار فون کرنے لگی وہ ٹیلی فون پر باقاعدہ رونا بھی شروع کر دیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے خواتین کے معاملے میں مردوں کا دل نرم بنایا ہے چنانچہ یہ صاحب بھی آہستہ آہستہ ان کے ٹریپ میں آگئے اور یوں ان کار تعلق استوار ہو گیا۔ یہ دونوں دو دو تین تین گھنٹے فون پر گفتگو کرنے لگے ۔ اس دوران دونوں کی ایک آدھ ملاقات بھی ہوئی خاتون بہت خوبصورت پڑھی لکھی اور مہذب تھی ملاقاتوں کے بعد خاتون نے انہیں تنہائی میں ملنے کی دعوت دے دی یہ صاحب ملاقات کیلئے جانے لگے راستے میں یہ ایک دوست کے پاس رک گئے گفتگو کے دوران انہوں نے یہ قصہ بیان کیا دوست  نے ان سے خاتون کا نمبر لیا اپنے ایک دوست سے اس نمبر کی تحقیق اور ایڈریس کی درخواست کی اس دوست نے چند منٹوں میں اطلاع دی ہیں سم رب نواز نام کے کسی شخص کے نام جاری ہوئی ہے اور یہ ڈیرہ اسماعیل خان میں رہتا ہے۔ دوست نے ڈیر ہ اسماعیل خان میں پولیس کے ایک افسر کو ایڈریس دیا اور ان سے چھان بین کی درخواست کی اسی دوران اس خاتون کا فون آگیا وہ شخص ذرا سے جلد باز نکلے انہوں نے خاتون سے رب نواز کے بارے میں پوچھ لیا خاتون نے فور افون بند کر دیا اور اس کے بعد فون مکمل طور پر آف ہو گیا۔اس دوران پولیس ڈیرہ اسماعیل خان کے ایڈریس پر پہنچی گئی معلوم ہوا وہاں چند مشکوک لوگ رہے تھے اور یہ پولیس کے پہنچے سے پہلے فرار ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ ای کرائم سے متعلق ہے 'پاکستان میں جرائم پیشہ لوگ اب جدید ترین ٹیکنا لوجی استعمال کر رہے ہیں یہ خوبصورت خواتین کو استعمال کرتے ہیں ' جس کے بعد خواتین فون کے ذریعے ان لوگوں سے دوستی لگاتی ہیں یہ دوستی پکی ہو جاتی ہے تو یہ لوگ کرائے پر گھر لے لیتے ہیں خاتون اس شخص کو بلاتی ہے اسے چائے کافی میں کوئی چیز ملا کر بے ہوش کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد لواحقین سے تاوان کا مطالبہ شروع کر دیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ ہمیشہ دس اور بیس لاکھ کے درمیان تاوان  لیتے ہیں یہ رقم آسانی سے بھی مل جاتی ہے اور خوشحال لوگ اس پر شور بھی نہیں کرتے۔ یہ رقم لینے کے بعد مغوی کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنا ٹھکانہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ انٹر نیٹ کے ذریعے مختلف لوگوں کے ای میل اکاؤنٹ بھی ہیک  کر لیتے ہیں اور ان کے دوستوں سے پیسے بٹورتے ہیں اور موبائل کمپنیوں کے ریکارڈ سے فون نمبر اور نام معلوم کر کے ان کے دوستوں سے دو چار ہزار روپے کے کارڈز بھی لوڈ کر الیتے ہیں۔ فراڈ اور جرم کا یہ سلسلہ اس وقت پورے ملک میں جاری ہے لہذا آپ کے پاس احتیاط کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ آپ احتیاط کریں اور اگر آپ کے موبائل پر کسی دوست کی مدد کی کال آئے تو آپ مدد کرنے سے پہلے تصدیق ضرور کر لیں۔ اسی طرح آپ کو اگر ای میل آئے تو بھی تصدیق کے بغیر رقم نہ بھجوائیں اور اگر آپ کو ٹیلی فون کے ذریعےدوستی کا پیغام ملے تو آپ سمجھ لیں آپ کو ٹریپ کیا جارہا ہے اور آپ اس ٹیلی فونک فرینڈ شپ " کے آخر میں اغواء  ہو جائیں گے اور اس واردات کے دوران آپ کی جان بھی جاسکتی ہے۔ احتیاط لازم ہے کیونکہ موبائل فون اس وقت ملک میں جرائم کا سب سے بڑا سورس بن چکا ہے کہ سورس آپ کو تلاش کر رہا ہے اور آپ اس سورس سے زیادہ دور نہیں۔