قوم کی بہو کی بے بسی
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
اگست 2021 میں کراچی کی ایک خاتون نے وزیراعلیٰ سندھ کے نام ایک خط بھجوایا‘ خاتون نے خط مں لکھا‘ مرتے خاوند انتہائی عللب ہں ‘ یہ ہفتے مںد تن بار ڈائیلیسز کراتے ہں ‘ ان کے ڈائیلیسز‘ ماہانہ ٹسٹووں‘ ادویات‘ انجیکشنز اور ڈاکٹروں کی فسو ں پر ایک لاکھ 75 ہزار روپے ماہانہ خرچ ہو جاتے ہںا۔ ہماری دونوں بایاتں مل کر یہ اخراجات برداشت کرتی ہںل لکنا اب ان کے بس کی بات بھی نہںخ لہٰذا مر۔ی آپ سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر مردے خاوند کے مڈچیکل اخراجات کا کوئی مستقل بندوبست کر دیں‘ خاتون نے آخر مںر لکھا‘ مریے خاوند مریے گھر مں رہتے ہںے اور یہ گھر مجھے مر ی والدہ نے دیا تھا‘ یہ ایک عام سا خط تھا‘ ملک مںھ روز ہزاروں لوگ اس قسم کے خط لکھتے ہںئ اور حکومت سے امداد مانگتے ہںہ‘ یہ کوئی غرںمعمولی بات نہںر لکنر یہ خط اس کے باوجود غرکمعمولی ہے‘ کو ں؟ کوتں کہ یہ درخواست کسی عام شخص نے نہںب کی‘ یہ خط پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لا قت علی خان کی بہو دُر لاتقت علی خان نے لکھا تھا اور جس مریض کے لےا امداد مانگی جا رہی ہے اس کا نام اکبر علی خان ہے اور یہ لادقت علی خان اور بگمئ رعنا لامقت علی کا بٹات ہے۔ہمارے ملک مں شاید بہت کم لوگوں کو علم ہو گا لابقت علی خان کرنال کے بہت بڑے جاگربدار خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ ان کی جاگرٹ مںد ریلوے اسٹشنا تھا اور ان کے کھتو اور باغ ملو ں تک پھلےج تھے‘ وہ 1918 مں آکسفورڈ یونونرسٹی مںو پڑھنے گئے تھے‘ وکالت شروع کی تو وہ چند برسوں مں ہندوستان کے بڑے وکلاء مںل شمار ہونے لگے‘ 1923مں ساسست مں۔ آئے اور 1926 مںھ انگریز دور مںگ یوپی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ مسلم لگو جوائن کی تو قائداعظم کے بعد ہندوستان مں۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے لڈمر بن گئے‘ 1947 مںت پاکستان آئے تو اپنی ساری زمن جائدیاد‘ روپہے پسہھ حتیٰ کہ کپڑے تک بھارت چھوڑ آئے اور کراچی مں جائدباد کا کسی قسم کا کلما نہ کاو‘ اس سرزمنج پر ایک انچ زمنن نہ لی‘ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے‘ وہ اگر چاہتے تو آدھا کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی ان کا ہوتا‘ وہ اگر دہلی اور ممبئی کے گھروں کا کلم ہی لے لتے تو ان کا خاندان آج ارب پتی ہوتا لکنر اس درویش صفت انسان نے ملک کو اپنا سب کچھ دے دیا لکنں بدلے مںم لا کچھ نہںا۔ ان کی بگمچ اپنے زمانے کی انتہائی خوب صورت‘ مہذب اور پڑھی لکھی خاتون تھںا‘ وہ برٹش آرمی کے انگریز مجرت جنرل ڈیلکر پنٹے کی بیرا تھںک‘ والدہ برہمن تھی‘ لکھنو یونوںرسٹی سے گریجوایشن کی اور گوکھلے مموکریل اسکول کلکتہ مںن پڑھانا شروع کر دیا‘ 1931 مںم ایم اے کاا اور دہلی مں پروفسرم بن گئںا‘ ان کا نام شلاخ آئرن پنٹل تھا‘ 1932 مں اسلام قبول کا ‘ خان لارقت علی خان سے شادی کی اور شلان سے بگم رعنا لااقت علی خان بن گئںک۔ ان کے دو بٹےھ تھے‘ اکبر علی خان اور اشرف علی خان‘یہ دونوں سعادت مند بھی تھے اور عزت دار بھی‘ لاوقت علی خان اور رعنا لاکقت علی خان نے جوانی فراوانی مںن گزاری تھی‘ دنا جہاں کی نعمتںم ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑی رہتی تھںم لکنج یہ لوگ جب پاکستان آئے تو یہ خالی ہاتھ تھے‘ کراچی مںا خان لااقت علی خان کے نام پر ہزاروںایکڑ پر لاققت آبادکا سکٹر بنا لکنو اس مںا بھی خان لاتقت علی خان نے ایک انچ زمن نہںں لی۔ یہ جب 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی مںب سدن اکبر کی گولی کا نشانہ بنے اور ان کی اچکن اتاری گئی تو پتا چلا ملک کے پہلے وزیراعظم نے شرموانی کے نچے کرتہ نہں پہنا ہوا تھا‘ بناین تھی اور وہ بھی پھٹی ہوئی تھی‘ گھر مںع کپڑوں کے صرف تنے جوڑے اور دو جوتے تھے‘اکائونٹ مں چند سو روپے تھے‘ بگمہ اور بچے وزیراعظم ہائوس مں رہتے تھے‘ خواجہ ناظم الدین نئے وزیراعظم بن گئے‘ یہ اس گھر مںو آئے تو پتا چلا لااقت علی خان کی فیلو کے لےہ پورے ملک مںا کوئی گھر موجود نہں ‘ سوال اٹھا یہ لوگ کہاں جائںٹ گے؟ لہٰذا خواجہ ناظم الدین نے بگمع رعنا لاپقت علی خان کو ہالنڈ مںر سفر بنا کر بھجل دیا‘ بگم رعنا ہالنڈل‘ پھر اٹلی اور آخر مں؟ تو نس مںی سفر رہںو‘یہ واپس آئںپ تو ذوالفقار علی بھٹو نے انھں گورنر سندھ بنا دیا‘ یہ پاکستان کی پہلی خاتون چانسلر بھی رہںن‘ یہ کراچی یونوںرسٹی کی چانسلر تھںن‘ آپ اپوا سے لے کر پاکستان نشنلف وومن گارڈز‘ پاکستان وومن ریزرو‘ پاکستان کاٹج انڈسٹریز شاپ‘ ماڈل کالونی برائے کرافٹس‘ گل رعنا نصرت انڈسٹریل سنٹر ‘ کموےنٹی سنٹر یا پھر فڈوریشن آف یونوذرسٹی وومن اور انٹرنشنلے وومن تک ملک مںس خواتن کا کوئی ادارہ دیکھ لںر آپ کو خواتنر سے متعلقہ ہر بڑے ادارے کے پچھےہ بگم رعنا لاظقت علی خان ملںت گی‘ یہ جب ہالنڈک مںل سفرر تھںم تو ان کے بارے مں ایک واقعہ مشہور ہوا۔ ہالنڈھ کی ملکہ جولاننا ان کی دوست بن گئںں‘ یہ دونوں خواتنہ اس وقت پورے یورپ مں مشہور تھںب‘ بگمو رعنا لاٹقت تاش کے کھلک بریج کی بہت بڑی ایکسپرٹ تھںو‘ یہ روزانہ ملکہ کے ساتھ بریج کھیتر تھںں‘ ایک دن ملکہ جولامنانے بگمس رعنا کے ساتھ شرط لگائی اگر تم آج کی بازی جت گئی تو مںھ تمہںر اپنا ایک محل گفٹ کر دوں گی‘ بازی شروع ہوئی اور بگمن رعنا لااقت علی جتت گئں ‘ ملکہ نے اپنا وعدہ پورا کاہ اور اپنا ایک محل رعنا لا قت علی خان کو دے دیا اور بگمٹ صاحبہ نے یہ محل حکومت پاکستان کے لےی وقف کر دیا۔ آج بھی ہالنڈہ مںن پاکستان کا سفارت خانہ اسی محل مںو قائم ہے‘ یہ 1990مںن کراچی مںا فوت ہوئں اور انھں مزار قائد پر خان لاپقت علی خان کے پہلو مںا دفن کر دیا گاے لکنن یہ ہوں یا خان لاکقت علی خان وہ اپنی اولاد کے لےر کوئی زمنو یا جائد اد چھوڑ کر نہںد گئے اور آج ان کے صاحب زادے اکبر علی خان اپنی بگمھ دُر لاتقت کے گھرمںف رہتے ہںڈ اوران کی حالت یہ ہے ان کی بگم اپنے بماکر خاوند کے علاج کے لے وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھنے پر مجبور ہںں‘ ملک کے پہلے وزیراعظم کے صاحب زادے اور بہو ہر ماہ ایک لاکھ 75 ہزار روپے افورڈ نہںا کر سکتے‘ یہ خان لایقت علی خان کے ملک مںل اپنے ڈائیلیسز کا خرچ پورا نہںے کر سکتے۔ یہ ملک ان لوگوں کا تھا‘ یہ وہ لوگ تھے جو ملونں پر پھین جاگرعیں چھوڑ کر اس ملک مںہ آئے اور پھر پھٹی ہوئی بنارن کے ساتھ دفن ہوئے‘ یہ ملک راجہ صاحب محمود آباد جسےپ لوگوں کا ملک تھا‘ وہ محمود آباد کی ریاست کے راجہ تھے‘ پوری زندگی اپنی رقم سے مسلم لگک چلائی‘ پاکستان بنا تو کراچی آ گئے اور حکومت سے کوئی گھر‘ کارخانہ اور زمنہ نہںن لی‘ ملک مںں جب ساگسی افراتفری پھیےل‘ مارشل لاء لگا تو یہ مایوس ہو گئے اور چپ چاپ اٹھے‘ بگر اٹھایا اور لندن جا بسے۔ راجہ صاحب محمود آباد کا 1973مںا لندن مںہ انتقال ہوا‘ وہ انتقال سے قبل ہر ملنے والے سے کہتے تھے ’’مںا پوری زندگی جن انگریزوں سے لڑتا رہا‘ مجھے آخر مںے انھی انگریزوں کے گھر مںو پناہ لناچ پڑ گئی اور مںھ آج ان کی مہربانی سے اپنا آخری وقت عزت کے ساتھ گزار رہا ہوں‘‘ یہ سردار عبدالرب نشتر‘ مولوی فضل حق‘ حسن شہدک سہروردی اور خواجہ ناظم الدین کا ملک تھا ‘یہ لوگ ملک بننے سے قبل کروڑ بلکہ ارب پتی تھے لکنر وہ اس ملک مںد آئے۔عسرت مں زندگی گزاری اور پھر ان کی اولادیں اکبر علی خان کی طرح علاج اور چھت کو ترستی ہوئی دنال سے رخصت ہو گئںے۔ آپ المہز دیےھ آج اس ملک مںا قائداعظم کے رشتے دار چھت‘ علاج اور سواری کو ترس رہے ہںت‘ خان لاکقت علی خان کی بہو وزیراعلیٰ کو لاسقت علی خان کے صاحب زادے کے لےھ ایک لاکھ 75 ہزار روپے کی امداد کی درخواست کر رہی ہے‘ راجہ صاحب محمود آباد ان انگریزوں کے قبرستان مںت مدفون ہںک جن سے لڑ کر انھوں نے پاکستان حاصل کاا تھا‘ حسن شہدح سہروردی بر وت مںی لٹےں ہں ‘ خواجہ ناظم الدین کی آل اولاد تاریخ کے صفحات مںو گم ہو گئی۔ مولوی فضل حق عبرت کی نشانی بن کر ڈھاکہ مں دفن ہو گئے اور محمد علی بوگرا ملک چھوڑ کر بوگرا گئے اور چپ چاپ وہاں انتقال کر گئے ۔ آخر کار 30 نومبر 2022 کو پاکستا ن کے پہلے وزیراعظم کے بیٹے اکبر لیاقت بھی کسمپرسی کی زندگی گزارکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی بہو در لیاقت اپنے خاوند کی بیماری کے لیے حکومتی امداد کی متنظر رہی یہ پوری قوم کے لیے ایک المیہ ہے ۔ ہمںز شاید من حثا القوم انھی احسان فراموشو ں کی سزا مل رہی ہے‘ ہم شاید اسی لےا پوری دنان سے جوتے کھا رہے ہں ۔
.jpg)
0 Comments