خواتین کی اہمیت کیوں؟

تحریر: ایچ-ایم-زکریا

ورونہ اٹلی کا ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے، جولیٹ ورونہ شہر کے رئیس خاندان کیپولیٹ فیملی کی خوبصورت لڑکی تھی، ورونہ سرخ سنگ مرمر اور رومیو جولیٹ کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، بارہویں صدی میں شہر میں دو بڑے خاندان رہتے تھے۔ مانتنگ فیملی اور کیپولیٹ فیملی۔ یہ دونوں خاندان ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے، جولیٹ کا تعلق کیپولیٹ خاندان سے تھا اور رومیو مانتنگ خاندان سے تعلق رکھتا تھا، کیپولیٹ خاندان نے ایک رات حویلی میں رقص کا اہتمام کیا، رومیو بھیس بدل کر دشمن کی تقریب میں شریک ہو گیا، رقص کے دوران دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور یوں وہ ہو گیا جس پر آج تک سیکڑوں ناول، افسانے، کہانیاں اور ڈرامے لکھے گئے، فنکشن کے بعد رومیو کمرے کی بالکونی کے نیچے چھپ گیا، کھڑکی کھلی تھی، جولیٹ نے اپنی آیا کو رومیو کے بارے میں بتایا اور اعتراف کیا وہ رومیو کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے، رومیو نے سنا تو وہ رسی کی مدد سے اوپر چڑھا اور جولیٹ کو اپنی حقیقت بتا دی۔یہ حقیقت تلخ تھی لیکن معاملہ آگے بڑھتا رہا، رومیو روز آتا، رسی کے ذریعے بالکونی تک پہنچتا، دونوں ساری رات گپیں مارتے اور رومیو صبح واپس چلا جاتا، یہ معاملہ چل رہا تھا کہ ایک دن رومیو کے دوست مرکیوشیو (Mercutio) کی جولیٹ کے کزن ٹبالٹ سے مڈ بھیڑ ہو گئی، ٹبالٹ نے مرکیوشیو کو قتل کر دیا، رومیو کو پتہ چلا تو اس نے ٹبالٹ کو قتل کر دیا یوں شہر کے حالات خراب ہو گئے، رومیو کو شہر چھوڑنا پڑ گیا لیکن وہ جولیٹ کی محبت سے باز نہ آیا یہاں تک کہ وہ دونوں گھر سے بھاگ گئے، شادی کی، ایک دن اکٹھے رہے لیکن پھر جولیٹ کا خاندان اسے زبردستی اٹھا کر لے گیا، جولیٹ کے والد نے اس کی شادی کاؤنٹ پیرس سے طے کر دی۔شادی اگلے دن ہونی تھی لیکن اس دوران ایک بہی خواہ نے جولیٹ کو ایک ایسی دواء لا دی جسے پینے کے بعد وہ 40 گھنٹے کے لیے فوت ہو گئی، جولیٹ نے 40 گھنٹے بعد دوبارہ زندہ ہو جانا تھا، جولیٹ نے اس دواء کے بارے میں رومیو کو اطلاع بھجوائی، اس کا خیال تھا، خاندان اسے دفن کر دے گا، وہ 40 گھنٹے بعد دوبارہ زندہ ہو جائے گی، رومیو آئے گا اور دونوں ورونہ سے فرار ہو جائیں گے لیکن بدقسمتی سے جولیٹ کا پیغام رومیو تک نہ پہنچ سکا اور جولیٹ کے مرنے کی خبر پھیلی، خاندان نے اس کی آخری رسومات ادا کیں اور اس کی لاش کمرے میں رکھ دی گئی، رومیو کو انتقال کی خبر ملی تو وہ دیوانہ وار مقبرے کی طرف دوڑا، وہ یہاں پہنچا تو جولیٹ کا منگیتر کاؤنٹ پیرس بھی یہاں موجود تھا۔کاؤنٹ پیرس نے رومیو کو روکنے کی کوشش کی، دونوں کے درمیان لڑائی ہوئی اور کاؤنٹ پیرس رومیو کے ہاتھوں مارا گیا، رومیو جولیٹ کی لاش کے قریب پہنچا، لاش کا بوسہ لیا اور زہر کھا کر خودکشی کر لی، جولیٹ کی نیند کے چالیس گھنٹے پورے ہوئے، اس نے آنکھ کھولی، کاؤنٹ پیرس اور رومیو کی لاشیں دیکھیں تو چیخ ماری، خنجر اٹھایا، سینے میں اتارا اور گر کر مر گئی۔ یہ ایک عام سی داستان تھی، دنیا کے ہر ملک میں ایسی سیکڑوں داستانیں بکھری پڑی ہیں لیکن شاید اللہ تعالیٰ کو جولیٹ اور رومیو کی شہرت منظور تھی چنانچہ یہ کہانی پورے علاقے میں مشہور ہو گئی۔وینس کے ایک لکھاری لوئی گی ڈی پورٹا نے 1531ء میں یہ داستان لکھی، کتاب شایع ہوئی لیکن پاپولر نہیں ہوسکی، 1553ء میں میتھوبینڈ لیو اور گیرارڈو بولدیر نے بھی یہ داستان لکھی مگر اس کو بھی قبول عام نصیب نہ ہوئی، 1559میں بینڈلیو کی کتاب کا فرانسیسی میں ترجمہ ہوا، یہ ترجمہ شیکسپیئر تک پہنچا، وہ کہانی سے متاثر ہوا، اس نے 1594-95 میں ملکہ الزبتھ کے لیے رومیو جولیٹ کی ڈرامائی تشکیل کی، یہ ڈرامہ 1596 میں لندن میں پہلی بار کھیلا گیا، ملکہ کو اسٹوری پسند آ گئی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے غیر معروف شہر کی غیر معروف اور عام سی کہانی محبت کی عظیم داستان بن گئی، رومیو، جولیٹ اور ورونہ تینوں امر ہو گئے۔شہر میں جولیٹ کی گلی، مکان اور اس کی بالکونی آج بھی موجود ہے، یہ گلی، یہ گھر اور یہ بالکونی دنیا بھر کے عاشقوں کا قبلہ ہے، ہر سال لاکھوں لوگ یہاں آتے اور رومیو، جولیٹ اور شیکسپیئر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، گھر کا نمبر 23 ہے، یہ گھرآٹھ سو سال میں مختلف خاندانوں سے ہوتا ہوا کیپلو خاندان تک پہنچ گیا، 1907ء میں میونسپل کمیٹی نے عمارت خریدی اور اسے میوزیم کا درجہ دے دیا، گلی کے اندر، دکانوں کے درمیان ایک بڑا پھاٹک ہے، پھاٹک کے اندر پرانی ڈیوڑھی ہے اور ڈیوڑھی کی دونوں دیواروں پر عاشقوں نے رنگ برنگی مارکروں، نیل پالش اور خون سے ایک دوسرے کے نام لکھے ہیں، دیواروں پر کم وبیش دو تین کروڑ عاشقوں کے نام ہوں گے، یہ دیواریں آپ کو دیواریں کم اور آرٹ کا نمونہ زیادہ دکھائی دیتی ہیں، ڈیوڑھی کے بعد صحن آتا ہے، صحن کی سامنے کی دیوار پر سبز بیل چڑھی ہے، بیل کے سائے میں جولیٹ کا کانسی کا مجسمہ ایستادہ ہے، مجسمے کے ساتھ تصویر بنوانا یہاں کی عاشقانہ روایت ہے۔مرد حضرات مجسمے کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور مجسمے کے ایک خاص حصے پر ہاتھ رکھ کر تصویر بنواتے ہیں، مجسمے کا وہ خاص حصہ اس کثرت استعمال سے سیاہ ہو چکا ہے، مجسمے کے پیچھے دیوار پر سیکڑوں چٹیں لگی ہیں، یہ چٹیں عاشقوں کے "لو میسج" ہیں، دیوار پر نام بھی لکھے ہیں اور بائیں جانب ہزاروں تالے بھی لٹک رہے ہیں، مجسمے کے دائیں جانب گھر کا دروازہ ہے اور دروازے سے ذرا سا ہٹ کر دنیا کی وہ مشہور ترین بالکونی ہے جس کی "زیارت" کے لیے ہر سال کروڑوں لوگ ورونہ آتے ہیں، وہاں بالکونی پر کھڑے ہونے اور تصویر کھنچوانے کے لیے قطار لگی ہوتی ہے ، جہاں کبھی رومیو چھپ کر آتا تھا اور جولیٹ بے تابی سے اس کا انتظار کرتی تھی، جولیٹ کا بیڈروم تیسری منزل پر ہے، بیڈروم میں جولیٹ کا بیڈ اور لباس رکھا ہے ، یہ بیڈ اور لباس اصل نہیں ہیں، یہ 1968 میں بننے والی ہالی ووڈ کی فلم رومیو جولیٹ کا کاسٹیوم اور بیڈ تھا، بیڈروم کی بالائی منزل پر چار کمپیوٹر اور خط لکھنے کا سامان رکھا ہے، آپ کمپیوٹرز پر جولیٹ کو ای میل کر سکتے ہیں اور آپ کو جولیٹ کی طرف سے ای میل کا باقاعدہ جواب بھی آتا ہے، آپ وہاں مرحومہ کو خط بھی لکھ سکتے ہیں اور جولیٹ کی طرف سے آپ کے پتے پر جواب بھی آتا ہے۔یہ چیز انگریزوں کی مارکیٹنگ  ثابت کرتی ہے ، گورے نے معمولی سی داستان کو اساطیری شکل دے دی، دنیا بھر سے کروڑوں لوگ ہر سال یہاں آتے ہیں، یہ لوگ شہر کی معیشت میں پٹرول کی حیثیت رکھتے ہیں، جولیٹ کی وجہ سے ورونہ میں سیکڑوں دکانیں چل رہی ہیں، ٹرانسپورٹ کا بزنس، ہوٹلوں کا کاروبار، گائیڈز کی روزی، ریستوران اور کافی شاپس چل رہی ہیں چنانچہ جولیٹ کو یہاں وہ مقام حاصل ہے جو برصغیر کے پرانے شہروں میں زندہ پیروں کو حاصل تھا، بی بی کی وجہ سے آٹھ سو سال سے لاکھوں لوگوں کا روزگار چل رہا ہے۔ایک گورے ہیں جو آٹھ سو سال سے جولیٹ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ایک ہم ہیں جو آج تک سوہنی مہینوال، ہیر رانجھا اور سسی پنوں پر شرمندہ ہیں، ہم شرمندہ کیوں ہیں اور گورے رومیو جولیٹ پر کیوں فخر کرتے ہیں،ا س کا کوئی جواب کسی کے پاس  نہیں ۔ رومیو بھی اس شہر سے تعلق رکھتا تھا، اس کا گھر بھی اسی شہر میں موجود ہے لیکن اس بے چارے کا گھر ویران اور قبر بے نشان ہے جب کہ جولیٹ کے مکان اور مقبرے پر ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہیں، کیوں؟ شاید زن مریدوں کی اس دنیا میں عاشق بے چارے اور معشوقائیں قیمتی ہوتی ہیں، جولیٹ جولیٹ بن جاتی ہیں اور رومیو رانجھے بن کر بے نشان رہ جاتے ہیں، یہ دنیا زنانہ ہے اور اس میں صرف خواتین کو اہمیت حاصل ہے۔