کچھ سیکھنے کی چیزیں

تحریر: ایچ – ایم - زکریا



آپ اگر کبھی بسوں اور ٹرینوں کے سفر کی  لذت سے ہم کنار رہے ہیں تو پھر آپ اچھی طرح جانتے ہیں ٹرین یا بس میں کوئی ایک بے چارہ اخبار لے کر آتا ہے اور پھر سارا ڈبہ اس اخبار سے اپنی پیاس بجھاتا ہے‘ تین چار لوگ اخبار بین کے کندھوں پر سر رکھ کر خبریں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور باقی ’’بھائی جان ذرا اندر کا صفحہ مجھے دے دیں‘‘ کا حکم دے کر آدھا اخبار اچک لیتے ہیں اور اخبار کا مالک تھوڑی دیر بعد اپنے ’’کل اثاثے‘‘ کو ڈبے میں تقسیم ہوتا دیکھ کر دیوار حسرت بن جاتا ہے۔ ایک بار  میں ٹرین میں سفر کر رہا تھا‘ میرے سامنے بیٹھے صاحب نے اخبار کھولا اور پڑھنا شروع کر دیا‘ میرے ساتھ بیٹھا شخص           لالچ بھری نظروں سے اس کا اخبار دیکھنے لگا‘وہ  دور سے جتنا اخبار پڑھ سکتا تھا اس  نے پڑھ لیا اور پھر عادت سے مجبور ہو کر اس شریف انسان سے ایڈیٹوریل پیج مانگ لیا‘ اخبار کے مالک نے اسے  کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور غصے سے ایڈیٹوریل پیج اسے  دے دیا‘ اس  نے ایڈیٹوریل پیج دیکھا‘ اسے  وہ پھیکا سا محسوس ہوا‘ اس نے وہ سیٹ کی سائیڈ پررکھ دیا اور باقی اخبار کو ندیدوں کی طرح دیکھنے لگا‘ وہ صاحب مکمل اخبار بین تھے‘ وہ اخبار میں کھو کر خبریں پڑھ رہے تھے۔ دوسرے صاحب نے چند لمحوں تک کروٹیں بدلیں اور پھر کھنگار کر کہا ’’سر ذرا اندر کا صفحہ بھی مجھے دے دیں‘‘ اس نے غصے سے اخبار نیچے کیا‘ سارے صفحے تہہ کیے‘ اٹھ کر سائیڈ پر پڑا ایڈیٹوریل پیج بھی اٹھایا‘ وہ بھی تہہ کیا‘ اخبار کے اندر رکھا‘ کھڑکی کھولی‘ پورا اخبار باہر پھینکا اور آنکھیں بند کر کے سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا لی‘ اخبار کی بھیک مانگنے والا شخص منہ بسور کر بیٹھ گیا میں اس واقعے سے بہت لطف اندوز ہوا اور مجھے یقین ہے اخبار کی بھیک مانگنے والا شخص اخبار والے کو دل ہی دل میں گالیاں دیتا رہاہوگا‘ اور اس شخص کو گھٹیا اور چھوٹے دل کا سمجھتا رہاہوگا۔ لیکن اگر آپ سنجیدگی سے دیکھیں تو  ’’وہ شخص ٹھیک تھا‘ اخبار اس کا تھا‘ وہ چل کر اسٹال پر گیا ہو گا‘ اس نے اخبار خریدا ہو گا اور پھر اس نے سیٹ پر بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ اخبار پڑھنا شروع کیاہو گا لیکن دوسرے شخص  نے اس کا سارا موڈ برباد کردیا چناں چہ اس نے تنازعے کی ہڈی اٹھا کر باہر پھینک دی ، یہ غلطی شاید آپ بھی کرتے ہوں۔لیکن اگر ہم اپنی زندگی میں کچھ چیزیں سیکھ لیں تو اس سے ہماری اپنی اور دوسروں کی زندگی پریشانی اور الجھنوں سے بچ سکتی ہے ۔  میں نےایک  دوست سے فون کرنے کا طریقہ سیکھا تھا ‘آپ فون کرنے کے بعد سب سے پہلے دوسرے سے پوچھ لیا کریں کیا آپ فارغ ہیں‘ آپ ڈرائیو تو نہیں کر رہے‘ میں آپ کو دوبارہ بھی فون کر سکتا ہوں اور مجھے آپ کے صرف ایک منٹ یا دو منٹ چاہئیں وغیرہ وغیرہ‘ دوسرا فون پر ہمیشہ مختصر گفتگو کریں‘ یہ مشین ’’حال ڈیو،‘ ہور سنائو یا ہور کی حال اے‘‘ کے لیے نہیں بنی‘ فون صرف ضروری بات کے لیے بنایا گیا تھا‘ آپ اسی طرح ہمیشہ ایک منٹ سے چھوٹا آڈیو پیغام بھجوایا کریں۔کسی شخص کے پاس ہماری تین چار منٹ کی  بکواس سننے کا وقت نہیں ہوتا‘انسان 13 سیکنڈز میں اپنا پورا مدعا بیان کر سکتا ہے چناں چہ آپ ایک دوسرے کو 13 سیکنڈز سے بڑا پیغام نہیں بھجوائیں ‘ اسی طرح اگر آپ فون کرنے سے پہلے ایس ایم ایس اور واٹس ایپ کے ذریعے دوسرے سے فون کی اجازت لے لیا کریں تو یہ بھی بہت بڑی نیکی ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے دوسرا بے چارہ نماز پڑھ رہا ہو یا اپنے کسی عزیز کو لحد میں اتار رہا ہو اور ہم فون کر کے اسے پاکستان کی سیاست کے بارے میں بتانا شروع کر دیں‘ یہ ظلم ہے‘فون پر ہمیشہ دوسرے شخص کے ساتھ انتہائی میٹھے‘ عاجز اور مہذب ہوجائے ۔ کیوں کہ ہمیں فون کی دوسری طرف موجود شخص کے نروس سسٹم پر رحم کرنا چاہیے‘ وہ بے چارہ کس عذاب سے گزر رہا ہے ہم نہیں جانتے لہٰذا ہو سکتا ہے ہمارا میٹھا لہجہ اس کے کتنے زخم سی دے۔کچھ لوگوں کی بری عادت ہوتی ہے وہ کھانا کھاتے ہوئے دوسروں کی پلیٹ پر نظر رکھتے ہیں یا چائے پیتے ہوئے دوسروں کے گھونٹ گنتے ہیں یا بعض تو ایسے دیکھے ہیں کہ وہ چائے کا خالی مگ لے کر آجاتے ہیں کہ اس میں بس کچھ ڈال دیں میں نے پینی تو نہیں بس تھوڑی سی چائے چکھ لیتے ہیں۔ اب  انھیں کیسے بتایا جائے کہ چائے یا  کافی ضرورت نہیں ہوتی لگژری اورکلچر ہوتا ہے اور کلچر اور لگژری کا گھونٹ لسی کی طرح دوسروں سے مانگا نہیں جاتا۔ اسی طرح ایک شخص  تھا وہ ہمیشہ ہاتھ میں خوشبو دار ٹشو رکھتا تھا اور ہاتھ صاف کر کے دوسروں سے ملاتا تھا‘ میرے ساتھ اسلام آباد میں ایک شخص تھا ‘ وہ واش روم سے نکل کر آدھ گھنٹہ تک کسی سے ہاتھ ملاتا تھا اور نہ کھانے کی کسی چیز کو ہاتھ لگاتا تھا‘ میں اگر غلطی سے اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیتا تھا تو وہ کہتا تھا ’’سوری برادر مائی ہینڈ از ویٹ‘آئی جسٹ کیم فرام واش روم‘‘ آپ نے اکثر لوگوں کو گاڑی میں چھینک مارتے اور سب کو پریشان کرتے بھی دیکھا ہو گا جب کہ چھینک مارنے کا مہذب طریقہ یہ ہے آپ پہلے گاڑی کا شیشہ نیچے کریں اور پھر ٹشو پیپر یا رومال پر چھینک ماریں اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو اپنے کوٹ یا شرٹ کا بازو ناک پر رکھ لیں تاکہ آپ کے ہاتھ آلودہ نہ ہوں۔ دوسرا شرٹ یا کوٹ چھینک کو فوراً جذب کر لے گا اور کمرے میں بو نہیں پھیلے گی‘ آپ نے اکثر یہ بھی دیکھا ہو گا دس لوگ کھانا کھا رہے ہیں اور گیارہواں شخص آیا اور سب کے ساتھ ہاتھ ملانا شروع کر دیا اور اپنے جراثیم کھانا کھانے والوں کے ہاتھوں اور کھانا کھانے والوں کا سالن اپنے ہاتھ پر شفٹ کرا کر دستر خوان پر بیٹھ گیا‘ یہ حرکت انتہائی غیرمہذب اور ناشائستہ ہے‘ آپ آج سے پلے باندھ لیں آپ کھانا کھاتے لوگوں سے ملاقات نہ کریں‘ ان کے فارغ ہونے کا انتظار کریں اور اگر مجبوری ہو تو دور سے سلام کریں اور خالی کرسی پر بیٹھ جائیں‘ کیوں؟کیوں کہ آپ یقین کریں آپ کا ہاتھ کسی ولی اللہ کا ہاتھ نہیں جسے بیعت کے لیے پیش کرنا لازم ہے اور آخری عرض‘ آپ جب بھی کسی سے ملیں چھ فٹ کا شرعی فاصلہ رکھیں یہ انبیاء اور اولیاء دونوں کی سنت ہے‘ آپ ملاقات کے دوران یاد رکھیں آپ ملاقات کے لیے آئے ہیں اس شخص کو کھانے نہیں آئے۔