اندھوں کی انگلیوں پر آنکھیں لگانے والا

تحریر: ایچ-ایم-زکریا

لوئی ایک مختلف بچہ تھا وہ  1809 ء میں پیدا ہوا، 1820 میں حادثے کا شکار ہو گیا جان  بچ گئی مگر بینائی جاتی رہی وہ عمر بھر کیلئے اندھا ہو چکاتھا ،لو ئی کو پڑھنے کا جنون تھا وہ حادثے سے قبل روزانہ کتا بیں پڑھتا تھا لیکن وہ اب پڑھ نہیں سکتا تھا والدین امیر تھے چنانچہ انہوں نے معذور ہوتے ہی اس کیلئے دو ٹیوٹر ز کا بندوبست کر دیا۔ یہ ٹیوٹر ز لوئی کو کتابیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے مگر بارش اور برف باری کے موسم میں جب ٹیوٹر گھر نہیں آسکتے تھے تو لوئی کو کوفت ہوتی تھی اور وہ صحن میں دیوانہ وار چکر لگاتا تھا وہ اس وقت اپنی معذوری کو زیادہ شدت سے محسوس کر تا تھا والدین کو اس کی بے چینی بہت پریشان کرتی تھی مگر اس دور میں معذور لوگوں کے پاس دوسروں کے سہارے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا اس نے چار سال ٹیوٹر ز کے سہارے زندگی گزاری اور پھر اس نے اندھے پن میں رہ کر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا وہ کو ئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا چاہتا تھا جس کے ذریعے وہ کتاب پڑھ سکے لوئی نے انگلیوں کی پوروں کو آنکھیں بنانے کا فیصلہ کر لیا اس نے ایک ایساٹائپ رائیٹر ایجاد کرنا شروع کر دیا جو لفظوں کو کاغذ پر ابھار دیتا تھا اور وہ کاغذ پر انگلیاں پھیر کر ابھرے ہوئے لفظ پڑھ لیتا تھا لوئی نے یہ ٹائپ رائیٹر بنانے کیلئے دن رات کام کیا آپ تصور کیجئے کہ آپ کی آنکھیں نہ ہوں آپ ڈبل روٹی کو بھی ٹٹول کر محسوس کرتے ہوں لیکن آپ ایک ایسا طریقہ ایجاد کر نے میں جت جائیں جو پوری دنیا کی طرز فکر بدل دے یہ کتنا مشکل اور کتنا کٹھن ہوگا اللہ تعالی نے لوئی کو ارادے کی نعمت سے نواز رکھا تھا اس نے یہ ٹھان لیا "میں نے ہر صورت کامیاب ہونا ہے" اور لوئی بہرحال کامیاب ہو گیا اس نے 1839 ء میں ایک ایسا سسٹم ایجاد کر لیا جس کے ذر یعے دنیا بھر کے اندھے کتابیں پڑھ سکتے تھے لوئی نے یہ سسٹم ایجاد کر نے کے بعد باقی زندگی اس کی ترو یج اور پھیلاؤ میں لگادی وہ یہ سسٹم لے کر پورے یورپ میں گیا یہ بادشاہوں اور سیاستدانوں سے ملا اس نے تعلیمی ماہرین کے ساتھ مذاکرات کئے اور اس نے عوام کو بھی سمجھایا وہ 1852 ء تک زندہ رہا وہ زندگی کی آخری سانس تک اس سسٹم کی اشاعت میں لگار ہا مگر بد قسمتی سے اس کے انتقال تک یورپ میں یہ نظام کامیاب نہ ہو سکا،  لوئی کے انتقال کے بعد یورپ میں اندھوں کے حقوق کیلئے تحریکیں شروع ہوئیں اور صرف دو برسوں میں لوئی کا بنایا ہوا سسٹم پورے یورپ میں رائج ہو گیا یورپ کے 14 ملکوں نے تمام بڑی کتا بیں لوئی کے نظام پر منتقل کرنا شروع کر دیں آج لوئی  کا بنایا ہوا بریل سسٹم پوری دنیا میں رائج ہے۔ دنیا میں ہر سال بر یل پر ہزاروں کتابیں شائع ہوتی ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے بر یل سسٹم کو بریل سسٹم کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ سسٹم بنانے والے کے نام سے مشہور ہے لوئی کا پورا نام لو ئی بریل تھا اور دنیا میں جب بھی کوئی اندھا شخص بر یل پر کوئی حرف کوئی لفظ پڑھتا ہے تو وہ بے اختیار لوئی  بر یل کی کوششوں کا اعتراف کرتا ہے ۔ دنیا میں 20 ایسی ایجادات ہیں جنہیں ایجادات کی ماں قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہ ایجادات ہیں جنہوں نے آگے چل کر ایجادات کے ہزاروں بچوں کو جنم دیا۔ یہ بچے ہماری سماجی زندگی کا حصہ ہیں ہم ان بچوں کے بغیر آرام دہ زندگی نہیں گزار سکتے ان 20 ایجادات میں بریل بھی شامل ہے۔ بریل  نے دنیا کوپہلی بار بتایاکہ معذور بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں چنانچہ بریل کے بعد ایسی سینکڑوں چیزیں ایجاد ہوئیں جنہوں نے آگے چل کر معذوروں کی زندگی آسان بنادی اور لوئی بر یل اس ٹرینڈ کا بانی تھا لوئی نے بر یل ایجاد کر کے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا۔ ایجادات کی اصل ماں ضرورت ہوتی ہے آپ دنیا میں ضرورت پیدا کریں چیزیں خود بخود پیدا ہو جائیں گی“ کاش ہم لوئی بریل کے اس نقطے کو سمجھ لیں ہم یہ جان لیں دنیا کے تمام مسائل انسان کیلئے ہیں اور یہ مسائل انسان ہی  نے حل کرنے ہیں ہم یہ نقطہ جس دن جان لیں گے ہمارے پچاس فیصد مسائل حل ہو جائیں گے معاشرے  میں اس کے بعد بے روز گاری رہے گی، جہالت رہے گی اور نہ ہی بد امنی بے چینی لو ڈ شیڈ نگ اور ٹریفک کا شور۔ ہم پاکستانی بد قسمتی سے سینکڑوں مسائل کا شکار ہیں مگر ہم یہ مسائل حل کر نے کی بجائے دوسروں کی طرف دیکھ رہے ہیں ، مسائل ہمارے ہیں حل کوئی اور کریں ۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ پڑھائی ہم نہ کریں ،امتحان میں نقل ہم لگائیں ،گلی میں گند ہم ڈالیں گھر کا پانی ہم سڑک کی طرف نکال دیں ہم سڑ ک پراند هاد هند موٹر سائیکل چلائیں ، ہم گاؤں میں ہسپتال بننے  دیں اور نہ ہی ڈسپنسری، ہم سکول بھی کھلنے نہ دیں، ہم اپنے جعلی ڈگری ہولڈر بھائی بیٹےکو سکول اور کالج میں ملازمت دلادیں ہم واپڈا کے کھمبے سے تاراتار لیں ہم بلا ٹکٹ ٹرین میں سفر کریں، ہم سرکاری عمارتوں کے بلب چوری کر لیں اور ہم دن رات اسلام ، پاکستانیت اور مشرقیت کی بنیاد پر دوسروں کو تکلیف دیں مگر اس کے باوجود ہم خوشحال اور مطمئن زندگی گزاریں تو کیا یہ ممکن ہے ؟ ملک کے 20 کروڑ لوگ جب روزانہ درخت کی شاخیں کھائیں گے تو درخت کیسے سر سبز اور شاداب رہے گا؟ ملک کیسے آگے بڑھے گا؟ آپ لوئی بریلی سے لے کر نیوٹن اور بادام کیوری سے لے کر آئن سٹائن تک دنیا کے تمام محسنوں کے پروفائل پڑھ لیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی۔ یہ تمام لوگ اکیلے تھے ان کے پیچھے کسی حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں تھا یہ تھے اور بس ان کی دیوانگی تھی اور ان لوگوں نے آخر میں اپنے جیسے انسانوں کی زندگی سہل بنادی۔ یہ لوگوں کی بے نور زندگی میں رنگ بھرتے چلے گئے۔ ہمارا معاشرہ بھی لاچار اور بیمار ہے اس معاشرے کو بھی لوئی جیسے لوگ چاہئیں ایسے لوگ جو بے بس لوگوں کا ہاتھ تھا میں اور زندگی کی بے نور گلیوں میں راستے ٹٹولنے والوں کو سکون اور کامیابی کی منزل مل جائے۔ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جو لوئی بریں کی طرح اپنی زندگی تیاگ کر دوسروں کے مستقبل روشن کرتے ہیں ،دوم  وہ لوگ ہیں جو لوئی  جیسے لوگوں سے سیکھ کر دوسرے لوگوں کو سکھاتے ہیں اور تین ہمارے جیسے لوگ جو مرنے تک آسمان سے نصرت اترنے کا انتظار کرتے ہیں ،ہمارے معاشرے کو پہلی قسم کے لوگ درکار ہیں وہ لوگ جو مسائل حل کر نے کیلئے اپنی جان لڑادیں اللہ تعالی انسانوں کو برابر صلاحیتیں دیتا ہے آپ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو دن 24 گھنے مہینہ 30 دنوں اور سال 365 دنوں کا ملے گا آپ کو دنیا کے تمام انسانوں کے منہ پر دو آنکھیں دو کان ایک ناک اور بد ن پر دو ہاتھ اور دو پاؤں ملیں گے ہم سب برابر ہیں بس دنیاکی چند قومیں اپنے ان دو ہاتھوں دو آنکھوں دو کانوں اور ایک ناک کا استعمال سیکھ لیتی ہیں چنانچہ یہ آگے نکل جاتی ہیں جبکہ ہم لوگ ان کا استعمال نہیں جانتے،کیا دنیا میں ایسا ممکن ہے؟ کیا ہم اس اپر وچ کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے ۔ میری آپ سے درخواست ہے آپ لو ئی بریل بنیں آپ اندھارہ کر دوسروں کے ٹکڑوں پر نہ پلیں آپ معاشرے کے گداگر نہ بنیں آپ معاشرے کا لیڈر بنیں بالکل اس طرح جس طرح لوئی بریل نے بریل بناکر دنیا بھر کے اندھوں کی انگلیوں پر آنکھیں لگائی تھیں جو خود اندھیروں میں بھٹکتا رہا  لیکن اس نے دوسروں کو علم کی روشن گلیوں میں اترنے کا راستہ دکھادیا۔