انسانیت کے محسن کبھی نہیں مرتے

تحریر : ایچ- ایم- زکریا

چیک سلواکیہ کے بارڈر پر ایک چھوٹا ساٹاون ہے اس کا نام ہے ذلین ۔ 1880 ء میں یہ محض ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اس گاؤں میں موچیوں کے چند گھر تھے۔ یہ لوگ جوتے بناتے تھے اور اس سے روزی روٹی کماتے تھے۔تھامس موچیوں کا بیٹا تھا یہ بچپن سے ذراسا مختلف بچہ تھا یہ دیکھ رہا تھا اس کا خاندان چار سو سال سے جوتے بنارہا ہے اور جفت سازی کے اس پیشے میں اس کی در جنوں نسلیں ختم ہو گئیں، تھامس نے فیصلہ کیا یہ محض موچی بن کر زندگی نہیں گزارے گا چنانچہ اس نے اپنی بہن آنا اور بھائی انتھونی کے ساتھ مل کر 1894 ء میں ایک چھوٹی سی کمپنی  بنائی لیکن اس دور میں اس کا گاؤں ذلین  ایک انتہائی پسماندہ گاؤں تھا ،تمام گلیاں کچی تھیں اور اس گاؤں تک ٹرین کی پٹری بھی نہیں بچھی تھی لیکن اس کے باوجو د تھامس ڈٹ گیا اور اس نے ایک  شوز فیکٹری کی بنیاد رکھ دی اس کی فیکٹری میں شروع میں محض دس لوگ کام کرتے تھے لیکن پھر ان دس لوگوں کو سو ہوتے دیر نہ لگی ، تھامس ر وایتی جفت سازی کی بجائے مشینوں پر شفٹ ہوتا چلا گیا اور یوں اس کی کمپنی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی چلی گئی۔ تھامس  ایک وژنری شخص تھا اس نے محسوس کیا چمڑے سے جوتے بنانامشکل بھی ہے اور یہ جوتے سخت اور بھاری بھی ہوتے ہیں چنانچہ اس نے 1896 ء میں پہلا کینوس شوز بنایا ، یہ  جفت سازی میں انقلاب تھا کینوس شوز ہلکا بھی تھا، دیرپا بھی اور سستا بھی تھا ،اس وقت اس کی فیکٹری میں 120 لوگ تھے اور اس نے ذلین  میں اپنا شوروم بھی بنا لیا تھا 1899 ء میں ذلین میں ریل کی پٹڑی بچھ گئی اور یہ گاؤں بڑے شہروں کے ساتھ منسلک ہو گیا ، تھامس نے اپنی فیکٹری ریلوے لائن کے قریب شفٹ کر لی اور دھڑ ادھڑ جوتے بنانے لگا اس نے 1900 ء میں بھاپ کے پریشر سے چلنے والی پہلی مشین لگائی اور جفت سازی کی صنعت جدید دور میں داخل ہو گئی ، تھامس نے 1903ء میں پہلی ورکشاپ بنائی اور اس ورکشاپ نے جوتوں کی نئی نئی مشینیں بھی بنانا شروع کر دیں یوں  یہ جفت سازی کی نئی مشینوں کا بانی بھی بن گیا 1903 ء اور 1904 ء میں اس نے سفر بھی شروع کر دیئے یہ  جرمنی گیا اور پھر امریکا گیا اس نے جرمنی اور امریکا میں بڑی بڑی کمپنیوں اور فیکٹریوں کے دورے کئے اور ان کے نظاموں کا مطالعہ کیا اس نے فورڈ موٹر کمپنی کا دورہ کیا اور ہنری فورڈ سے ہزاروں ورکرز کو ہینڈل کرنا سیکھا یہ امریکا سے واپس آیا تو یہ سمجھ چکا تھا اگر میں نے اپنی کمپنی  کو بین الا قوامی برانڈ بنانا ہے تو پھر مجھے اپنے علاقے ذلین کو بدلنا ہو گا۔ میں اپنے ور کر ز کو گاؤں کے کلچر میں رکھ کر ان کو انٹر نیشنل شکل نہیں دے سکوں گا“ تھامس نے واپس آکر پورے ذلین کو اپنی ذمہ داری بنا لیا ، اس نے گاؤں میں سڑکیں بنائیں، سکول کھولا ،گاؤں میں چھوٹے قرضے دینے والا بینک بنایا، فارم ہاؤسز بنائے ،گاوں میں ٹیلی فون لگوایا اور تمام گھروں کو ٹیلی فون کے ساتھ منسلک کیا اس نے گاؤں کے لوگوں کیلئے ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی شروع کیا۔ پورے گاؤں اور فیکٹری کیلئے گر ڈسٹیشن  بنایا اور فیکٹری کے تمام ور کروں کیلئے گھر بھی بنائے۔ تھامس نے گاؤں میں سینما بھی بنایا جس میں گاؤں کے لوگوں کو ہفتے میں دو فلمیں دکھائی جاتی تھیں ،  تھامس نے پورے ذلین کی شکل بدل دی۔ اس کی کمپنی 1914 ء تک چار سو ملازمین کے ساتھ علاقے کی سب سے بڑی فرم بن چکی تھی 1914 ء میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی اور یہ جنگ تھامس کی کمپنی  کیلئے تر قی کا پیغام لے کر طلوع ہوئی،  تھامس نے 10 19 ء میں پہلا فوجی بوٹ بنایا تھا یہ بوٹ جوانوں کے مارچ کیلئے بہت اچھا ثابت ہوا ،  جنگ شروع ہوئی تو آسٹریا کی حکومت نے تھامس کو فوج کیلئے 50 ہزار بوٹ بنانے کا آرڈر دے دیا اس نے یہ آرڈر پورا کر نے کیلئے اپنی ٹینریز بنائیں فیکٹریوں کی تعداد میں اضافہ کیا اور اس کے ملازمین چار ہزار تک پہنچ گئے یہ روزانہ چھ ہزار جوتے بنانے لگا اس کےبنائے جوتےخصوصی ٹرینیوں پر مختلف فوجی یونٹوں میں پہنچنے لگے اور یوں یہ دیکھتے ہی دیکھتے یورپ کا سب سے بڑا شو میکر بن گیا ۔ تھامس نے 1917 ء میں چین اور سلواکیہ میں اپنی اٹھارہ شاپس کھول لیں اور یہ عام لوگوں کو بھی بڑے پیا نے پر جوتے فراہم کر نے لگا 18 19 ء میں جنگ ختم ہو گئی،  جنگ کا خاتمہ اس کی کمپنی کیلئے معاشی بحر ان لے کر آیا وہ  فوج کیلئے روزانہ چھ ہزار جوتے بنارہا تھا یہ سپلائی اچانک بند ہو گئی اس وقت تک اس کی فیکٹری میں چھ ہزار ملازم تھے۔ اس  کیلئے ان سب کو تنخواہیں دینا مشکل ہو گیا اس نے اس کا حل عام خریدار کی شکل میں نکالا اس  نے اپنے جوتوں کی قیمت میں چالیس فیصد کمی کر دی اور یورپ بھر میں دھڑ ا دھڑا دکا نیں کھولنا شروع کر دیں۔ یہ دنیا کی پہلی سیل تھی سیل  کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ سیل کی اس روایت کا آغاز 1921 ء میں ہوا تھا ۔ اس نے ذلین سے دس کلو میٹر دور جہاز ساز فیکٹری بھی لگائی تھی جس میں چھ نشستوں کے چھوٹے جہاز بنتے تھے، یہ ذلین کی تمام سڑکیں پکی کر چکا تھا یہ ذلین  میں شرح خواندگی سو فیصد کر چکا تھا یہ  پورے شہر کو بجلی پانی اور ٹیلی فون کی سہولت دے رہاتھا اور اس شہر میں ہر شخص بر سر روزگار بھی تھا اس نے شہر میں سولہ منزلہ عمارت بھی بنوائی یہ یورپ کی سب سے بلند عمارت تھی یہ عمارت آج تک قائم ہے تھا مس کے بعد اس کے بیٹے  تھامس جو نیئر نے کمپنی کی عنان سنبھالی اور کمپنی کی توسیع کا کام جاری رکھا دوسری جنگ عظیم کے دوران ذلین پر فضائی حملہ ہوا فیکٹریوں پر بمباری ہو گئی فیکٹریاں تباہ ہو گئیں اور تھامس جونیر کینیڈا شفٹ ہو گیا اس نے وہاں کمپنی کی بنیاد رکھی، فیکٹری لگائی اور بزنس شروع کر دیا، 1894  ء سےلے کر آج  تک اس کمپنی نے مختلف جوتوں کے پانچ ہزار ڈیزائن بنائے ہیں و نیاکا پہلا فوجی بوٹ، پہلا سپورٹس شوز ،پہلا کینوس شوز، پہلا سکول شوز اور خواتین کے پہلے کمرشل سینڈ لز بھی اس کمپنی نے بنائے تھے۔ تھامس کا پورا نام تھامس باٹا تھا جی ہاں وہی باٹاجس کی شوزکمپنی آج بھی باٹا کے نام سے پوری دنیا میں مشہور ہے تھامس 12 جولائی 1932ء میں ہوائی جہازکے حادثے میں انتقال کر گیا ، تھامس باٹا اس دنیا سے چلا گیا لیکن باٹا کانام ہمیشہ زندہ رہے گا کیونکہ یہ صرف تاجر یا صنعت کار نہیں تھا یہ انسانیت کا محسن بھی تھا اور انسانیت کے محسن کبھی نہیں مرتے“