معاشرے میں خود کشی کا بڑھتا رحجان

تحریر: ایچ- ایم-زکریا

ابرار حسین چنیوٹ کے گاں کرم شاہ میں پیدا ہوئے اور یہ شیخوں کی سب کاسٹ نیکوکارا سے تعلق رکھتے تھے‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے رہے‘ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے انٹرنیشنل ریلیشینز میں ایم اے اور سی ایس ایس کیا ۔ یہ او ایم جی گروپ میں آنا چاہتے تھے لیکن ان کو ایس پی ایس گروپ میں بھیج دیا گیا یوں انھوں نے پولیس سروس جوائن کر لی‘ یہ مختلف اضلاع میں اے ایس پی اور ایس پی بھی رہے اور خوشاب میں ڈی پی او اور فیصل آباد میں چیف ٹریفک آفیسر بھی اور یہ آخر میں روات پولیس ٹریننگ سنٹر میں پرنسپل ہو گئے‘ یہ پولیس سروس میں ابرار حسین نیکو کارا کہلاتے تھے۔یہ بہت ڈیشنگ پر  سنیلٹی تھے‘ یہ ملنے والوں کو بہت جلد متاثر کر لیتے تھے لیکن یہ ذاتی زندگی میں کم زور اور حساس تھے‘ جلد ہی لوگوں کے دبا میں آ جاتے تھے‘آپ یہ یاد رکھیں پولیس پر ہمیشہ سیاسی‘ عوامی‘ مذہبی اور نفسیاتی دبا ہوتا ہے ۔اگر ساتھ میلان طبع کے جاب نہ ملے تو انسان پر اس کا دباو ان سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ نیکوکارا کی طبیعت حساس تھی چناں چہ یہ ٹینشن میں آ گئے‘ یہ دبا اینگزائٹی میں تبدیل ہو گیا‘ اینگزائٹی ڈپریشن بن گئی اور یوں یہ باقاعدہ نفسیاتی مریض بن گئے‘ یہ نفسیات دانوں کے پاس بھی جانے لگے اور ادویات بھی استعمال کرنے لگے‘ اس دوران نیکوکارا کے اندر خودکشی کا رجحان پیدا ہو گیا‘ نفسیات دان نے یہ تبدیلی بھانپ لی لہٰذا اس نے انہیں اکیلا رہنے سے پرہیز کا مشورہ دے دیا‘ ڈاکٹر نے ہدایت کی ”آپ باتھ روم بھی اکیلے نہیں جائیں گے‘ کوئی نہ کوئی شخص دروازے کے باہر کھڑا ہو گا اور آپ اندر سے کنڈی نہیں لگائیں گے“ یہ ہدایات کے مطابق ادویات بھی کھاتے رہے اور ڈاکٹر کی ایڈوائس پر عمل بھی کرتے رہے۔یہ سلسلہ 13 جنوری 2020ءتک جاری رہا‘ 13جنوری کی رات ابرار حسین نیکوکارا نے اپنے کمرے میں خود کو گولی مار لی۔ پولیس کو ان کی لاش کے قریب ان کے ہاتھ سے لکھا نوٹ ملا‘ نوٹ میں لکھا تھا ”انسان خودکشی اس لیے کرتا ہے جب وہ بیزار ہو جاتا ہے اور اس کو تخلیق کی سمجھ آ جاتی ہے‘ جب ایک سمجھ دار بندہ اپنی جان لیتا ہے تو اس کی موت پر رویا نہیں کرتے‘ اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں“۔ابرار حسین نیکوکارا کی خودکشی کوئی عام خودکشی نہیں تھی۔ یہ ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کی خودکشی تھی‘ یہ اس افسر کی خود کشی تھی جن کوہماری سوسائٹی اس معاشرے کی کریم کہتی ہے (جبکہ میرا ذاتی خیال اس سے مختلف ہے) ،سوسائٹی  کو اسے سیریس لینا چاہیے تھا لیکن افسوس اس واقعے کو بھی عام سمجھ کر اگنور کر دیا گیا۔ اس کو سیریس لینا بھی چاہیے کیوں؟ کیوں کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ 15 مئی 2016ءکو ایس ایس پی جعفرآباد جہانزیب کاکڑ بھی اپنے سروس پسٹل سے خودکشی کر چکے ہیں‘ گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر سہیل ٹیپو نے بھی 22 مارچ 2018ءکو اپنے گھر میں پنکھے کے ساتھ لٹک کر جان دے دی تھی اور ڈی پی او ننکانہ شہزاد وحید نے بھی 28 مارچ 2011ءکو خودکشی کر لی تھی‘ یہ خودکشیاں منہ سے بول رہی ہیں ملک کے طاقت ور اداروں میں سلیکشن اور افسروں کی جانچ پڑتال کا سسٹم بھی ٹھیک نہیں اور سول سروس اور پولیس فورس کے افسروں کا پراپر میڈیکل اور نفسیاتی ٹیسٹ بھی نہیں ہو رہا اور یہ سگنل خوف ناک ہے۔ دوسرا ہمارے سسٹم میں سٹریس مینجمنٹ کی تعلیم کا بھی بندوبست نہیں‘ہمیں یہ سمجھنا ہوگا سرکاری اہلکار روزانہ سٹریس سے گزرتے ہیں‘ ان پر سیاسی‘ عوامی‘ مذہبی اور نفسیاتی دبا ہوتا ہے اور اگر اس دبا میں رانگ کیرئیرکا  دبا بھی شامل ہو جائے تو یہ نیم پاگل ہو جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا سوسائٹی  اس سٹریس سے واقف ہے ؟ جی نہیں! ۔نہ سوسائٹی اس سے واقف ہے اور نہ ہی لوگ۔ سٹریس منیجمنٹ کی ورکشاپس بھی ہوتی ہیں اور موٹیویشنل سپیکر بھی بلائی جاتے ہیں ‘ یہ تقریر کر کے چلے جاتے ہیں اور سٹریس مینجمنٹ کی ورکشاپ ختم ہو جاتی ہے‘ کوئی انہیں دبا کو مینج کرنے کا طریقہ نہیں سکھاتا جب کہ ترقی یافتہ ملکوں میں افسروں کو ہفتہ وار ٹریننگ دی جاتی  ہیں‘ یہ سٹریس کوبھی افسروں تک محدود نہیں رہنے دیتیں‘ یہ اسے سسٹم پر شفٹ کر دیتی ہیں اور یوں افسر بچ جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں خودکشی اور قتل دونوں موضوعات پر ہزاروں کتابیں اور ریسرچ پیپر لکھے جا چکے ہیں‘ نفسیات دان یہ تک طے کر چکے ہیں کس قسم کے انسان کس وقت اور کس طریقے سے خودکشی کرتے ہیں‘ یہ ان کی حرکتوں اور ان کی باتوں سے ان کے عزائم کا اندازہ بھی کر لیتے ہیں۔ یہ تک طے ہو چکا ہے خودکشی کرنے والے آسان اور دستیاب ٹول کی طرف جاتے ہیں مثلاً دیہاتی علاقوں میں چوہے مار اور گندم میں رکھی جانے والی گولیاں کھائی جاتی ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں‘ نہروں‘ کنوں اور دریاں والے علاقوں میں لوگ پانی میں کود کر خودکشی کرتے ہیں‘ پٹرول پمپوں کے نزدیک رہنے والے پٹرول چھڑک کر خودکشی کرتے ہیں‘ ریلوے لائین اور بلند عمارتوں کے نزدیک رہنے والے عمارتوں سے کودتے ہیں یا پھر ریلوے کی پٹڑیوں پر لیٹ کر جان دے دیتے ہیں۔ ہتھیاروں کے مالک خود کو گولی مار لیتے ہیں اور پنکھوں کے نیچے رہنے والے پنکھوں سے لٹک جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ انسان دستیاب وسائل کی طرف جاتا ہے اور یہ وسائل دستیاب ہوتے ہیں‘ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہو گی خودکشی کی کوشش کے دوران بچ جانے والے دوبارہ خودکشی نہیں کرتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ موت کو قریب سے دیکھ کر ڈر جاتے ہیں‘ دوسرا یہ جان لیتے ہیں ان کے جانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور تیسرا خودکشی ایک ذہنی عارضہ‘ ایک دماغی بیماری بھی ہے۔ یہ بچ جانے کے بعد اس بیماری کا علاج کراتے ہیں اور یوں یہ باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے اور آپ کو شاید یہ جان کر بھی حیرت ہو دنیا میں جب بھی کوئی مشہور یا طاقت ور شخص خودکشی کرتا ہے تو خودکشیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ معاشرے کے بے شمار لوگ خودکشی کرنے والوں کی صورت حال سے گزر رہے ہوتے ہیں‘ یہ روز مرنے کا ارادہ کرتے ہیں اور پھر یہ ارادہ توڑ دیتے ہیں لیکن جب ان کے سامنے کوئی مشہور یا طاقت ور شخص خود کو مار تا ہے تو انہیں حوصلہ اور ہمت مل جاتی ہے‘ نفسیات کی زبان میں اسے وردھر ایفیکٹ کہتے ہیں۔ ہمیں اب یہ سمجھنا ہوگا معاشرے میں گھٹن اور دبا ہے‘ یہ دبا اب مرض کی شکل اختیار کرچکا ہے‘ ہم سب خودکشی کے کرونا وائرس کا شکار ہیں‘ آپ کسی دن کا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو خودکشی کی خبر ضرور ملے گی‘ رمضان‘ عید اور جشن آزادی کے قریب ان خبروں میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ امتحانات سے پہلے اور رزلٹ کے بعد بھی خودکشی کی خبریں شروع ہو جاتی ہیں اور شادی بیاہ کے دوران بھی دولہے یا دولہن کا کوئی نہ کوئی رشتے دار خودکشی کر لیتا ہے۔ یہ وبا اب بچوں میں بھی پھیل رہی ہے‘ یہ رزلٹ اچھا نہ آنے یا اپنے کسی کلاس فیلو کی کام یابی پر خود کو قتل کر لیتے ہیں‘اور یہ وائرس اب اعلیٰ سرکاری افسروں تک بھی پہنچ چکا ہے‘ ابرار حسین نیکوکارا جیسے ذہین اور شان دار افسر بھی اب نہیں بچ سکے‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے ہم نفسیاتی طور پر بیمار ہیں‘ ہم معاشرتی توازن کھو چکے ہیں اور ہمیں اب قومی سطح پر علاج کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ ایک چلتا پھر تابم ہیں‘ ہم میں سے کون کس وقت پھٹ جائے گا ہم نہیں جانتے۔ آپ معاشرے کو بغور دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ہمارے نوجوان گہرے کلر کے کپڑے پہننا پسند کرنے لگے ہیں ان ڈور ایکٹیویٹیز زیادہ ہیں کھیل کے میدان ویران ہیں اب سب کی یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں گھٹن اور فرسٹریشن زیادہ ہے ۔ہمیں کردار سازی اور ذہن سازی دونوں کرنی ہوں گی‘ سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز کی سربراہان اور ٹیچرز کو چاہیے کہ یہ اپنے سبجیکٹ کو پڑھانے کے  ساتھ ساتھ بچوں کے ٹیلنٹ ڈسکوری کے اوپر بھی کام کریں اپنے سبجیکٹ کا کم از کم پریکٹیکل سکوپ اورانڈسٹری ضرور بتائیں تاکہ سٹوڈنٹ ڈگری لینے کے بعد فرسٹریشن کا شکار نہ ہو ، وہ اپنے پسندیدہ پروفیشن میں جا سکے ، معاشرے کا مفید شہری بن سکے ، معاشرے میں گھٹن کم ہو اور خود کشی کا رحجان ٹوٹ جائے ورنہ ہماری آنے والی نسل ہمارے اپنے لیے عذاب ثابت ہوگی۔