مجھے
اتنی بڑی سزا کیوں دی گئی؟
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
یہ
14 ستمبر کی شام تھی، شہیر کے ابا نذیر نے اپنی بیوی شازیہ سے اپنے 12 سالہ بیٹے
شہیر کے متعلق پوچھا تو بیوی نے جواب دیا کہ بغیر بتائے کہیں چلا گیا ہے۔
نذیر
سخت غصے کی حالت میں گھر سےباہر شہیر کو ڈھونڈنے نکلا اور جلد ہی اسے گھر کے قریب گراؤنڈ میں دوستوں کے ساتھ پتنگ اڑاتا ہوا
مل گیا، نذیر اسے وہاں دیکھ کر غصے سے پاگل ہوگیا پہلے کچھ مار پیٹ کی اور پھر وہیں
کھڑے ہوکر اپنے 12 سالہ بچے شہیر سے اس کے "ہوم ورک" اور حال ہی میں
ہونے والے ٹیسٹس میں لئیے گئے "نمبروں" سے متعلق سوالات شروع کئے جس کے
جوابات شاید "کم عقل" شہیر کے پاس نہیں تھے۔
آپ
کمال دیکھیں کہ یہ "نالائق، نکما اور موٹی عقل والا بچہ" بہترین پتنگ
اڑانا جانتا تھا، جو کام میں خود آج تک ہر کلاس میں پوزیشن لینے کے باوجود نہیں
کرسکا، مگر اس بدقسمت بچے کو ہوم ورک اور ٹیسٹ میں کم نمبروں کی وجہ سے اس کا باپ
مارتا، پیٹتا اور گھسیٹتا ہوا گھر لایا اور گھر لاکر پھر وہی" ہوم ورک اور ٹیسٹ
کے نمبروں" پر تفتیش شروع ہوگئ، اس دوران نذیر کا غصہ تیز ہوتا چلا گیا اور
اس نے اسپرٹ اور کیروسین آئل کی بوتل اپنے 12 سالہ معصوم شہیر پر چھڑک دی۔
بچہ
چیختا، چلاتا اور روتا رہا مگر سنگدل باپ کا ایک ہی سوال تھا کہ "ہوم ورک کیوں
نہیں کیا؟" اور" ٹیسٹ میں نمبرز کیوں کم آئے؟" ان دونوں سوالات کے
جواب میں شہیر کے پاس سسکیاں، آنسو اور چیخیں تھیں کیونکہ اس کا پورا جسم کیروسین
آئل اور اسپرٹ میں ڈوبا ہوا تھا.
تھوڑی
ہی دیر میں اس کا باپ باورچی خانے سے ماچس لے آیا اور ڈرانے کے لئے جیسے ہی دیا
جلائی اگلے ہی لمحے آگ بھڑک اٹھی اور شہیر کا جسم شعلوں کی زد میں آگیا، شازیہ
بھاگتی ہوئی اپنے بچے کو بچانے آئی مگر تب تک بے رحم باپ اپنے ہی لختِ جگر کو اپنے
ہاتھوں سے آگ کے حوالے کرچکا تھا۔
بہت
کوششوں کے باوجود جب آگ بجھی تب تک شہیر کا بڑا حصہ جل چکا تھا، سول اسپتال میں 14
اور 15 ستمبر کو تڑپ تڑپ کر اپنی سانسیں پوری کرنے والا معصوم شہیر 16 ستمبر کی
شام "ہوم ورک" نہ کرنے اور "ٹیسٹ میں کم نمبرز" لانے کے
گھناؤنے جرائم کی پاداش میں آگ میں جل کر اپنے ہی باپ کے ہاتھوں قتل کردیا گیا تھا۔
قیامت
کے دن زمین میں زندہ گاڑی ہوئی لڑکی کے
ساتھ شہیر بھی اپنے باپ سے ضرور سوال کرے گا کہ "مجھےاتنی بڑی سزا کیوں دی گئی مجھے کیوں قتل کیا گیا تھا؟ "
اس
معاشرے سے، اس ڈھکوسلے نظام تعلیم سے ان اسکولوں سے جو بڑی بڑی قد آدم سائز کی
تصاویر اپنی عمارتوں کے اوپر لگاتے ہیں
اور بچوں کے والدین میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں۔
سوال
تو یہ بھی ہے کہ معاشرے کا وہ بچہ جو پتنگ اڑانے جیسے ہنر کا ماہر تھا، جو کرکٹ
اور ویڈیو گیمز کا ماہر تھا اس کے یہ نمبرز کہاں شمار کئے گئے ہیں؟
اس
کی تصاویر اور اس کا ہنر کس کو دکھایا گیا ہے یا ہمارے والدین اور محترم اساتذہ
اکرام کے پاس یہ تمام ہنر
"نکما" ہونے کا ثبوت ہیں؟
یہ
واقعات دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں کیونکہ معاشرے میں ہر روز "ہوم ورک کی
بھرمار" اور صبح شام "ٹیسٹ کے نمبرز بانٹنے والے" تعلیمی اداروں میں
اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
کوئی
تعلیمی ادارہ ایسا بھی ہے جو بچوں کے والدین کے تربیتی معیار کو بھی جانچنے کا
انتظام کرتا ہو؟
کوئی
تعلیمی ادارہ ایسا بھی ہے جو بچوں کے رحجان کوجانچنے کا انتظام کرتا ہو؟
جو
ماں اور باپ کے "مینٹل لیول" کو بھی ہر مہینے نمبروں کے ذریعے چیک کرتا
ہو،ان کی ذہنی حالت اور دماغی صحت کا جائزہ لیتا ہو؟
والدین سے ایک درخواست
ہے اگرآپ اپنے بچوں کے بجائے خود اسکول میں داخل ہوجائیے ایک ہفتے میں ذہنی مریض
بن کر باہر نہ آجائیں تو پھر بات کیجئیے گا۔

0 Comments