چند نوجوان چاہیے

تحریر : ایچ-ایم-زکریا



 امریکہ میں ایک این جی او ہے اس کا نام " فوڈ بینک" ہے۔ اس این جی اوز کے کارکنوں نے دیکھا امریکہ میں روزانہ ہزاروں ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔ لوگ ریستورانوں میں آتے ہیں کھانے کا آرڈر دیتے ہیں ، تھوڑا سا کھاتے ہیں اور باقی ڈسٹ بن میں پھینک کر چلے جاتے ہیں ۔فائیو سٹار ہوٹلوں میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ افسوسناک ہے وہاں کوالٹی اور سٹینڈرڈ کے نام پر روزانہ لاکھوں ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔ یہ عالمی قانون ہے فائیو سٹار ہوٹلوں میں اگر گاہک کو کو ئی ڈش سرو کر دی جائے اور گاہک اسےبغیر چھوئے واپس کر دے تو بھی وہ ڈش ضائع کر دی جاتی ہے۔ فائیو سٹار ہوٹل خوراک کو ضائع کرنے کیلئے ہر ماہ   لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اسی امریکہ میں ہزاروں لاکھوں لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں ۔ ہر سال امریکہ میں سینکڑوں واقعات سامنے آتے ہیں جن میں لوگ بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں جب یہ دونوں حقیقتیں ان لوگوں کو معلوم ہوئیں تو ان لوگوں نے سوچا ہم کیوں نہ ایک ایسا ادارہ بنائیں جو خوراک کی زیادتی سے پریشان لوگوں سے غذا جمع کر کے ان لوگوں تک پہنچائے جو ڈبل روٹی کے سوکھے ٹکڑوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اس انتظار میں ان کی آنکھوں کا پانی خشک ہو جاتا ہے ۔  خیال اچھا تھا یہ لوگ میدان میں کود پڑے این جی  اور جسٹر کرائی انہوں نے اس کا نام فوڈ بینک رکھا ۔فائیو سٹار ہوٹلوں میں گئے ۔ انتظامیہ کو سمجھایا آپ لوگ خوراک ضائع کرنے کی بجائے ہمیں دے دیا کریں انتظامیہ کو کیا چاہیے تھا؟ انہیں ہر ماہ اس کام کیلئے ہزاروں لاکھوں ڈالر خرچ کرنا پڑتے تھے وہ فور أمان گئے اب یہ ہو تا تھا فوڈ بینک کے کارکن مخصوص اوقات میں مختلف ہوٹلوں میں جاتے وہاں سے خوراک کے پیکٹ اٹھاتے ،انہیں دفتر لاتے ،کھولتے ،صاف کر تے ،گرم کر کے دوبارہ پیک کر تے ،گاڑیوں میں رکھتے اور ان بستیوں میں چلے جاتے جہاں زندگی شرمندگی کا کمبل اوڑھے کسی نجات و ہندہ کی منتظر ہوتی۔ یہ سلسلہ جاری رہا فوڈ بینک کا نیٹ ورک وسیع ہوتا گیا ،ہوٹلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ،خوراک وصول کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ،این جی او کے کارکنوں میں بھی اضافہ ہوا۔ مخیر حضرات بھی آئے یوں یہ ادارہ بڑے بڑے ٹرالروں اور وسیع و عریض کچنز کا مالک بن گیا۔ ان کے ٹرالروں میں کھانوں کو محفوظ رکھنے انہیں گرم کرنے اور انہیں پھر چیک کرنے کی مشینیں لگی ہوئی ہیں کھانا آتا ہے ٹرالر کے اندر ہی صاف ہوتا ہے گرم ہو تا ہے۔ پیک ہو تا ہے اور پھر منزل مقصود پر پہنچ کر تقسیم ہو جاتا ہے جو باقی  بچ جاتا ہے وہ ان ٹرالروں کے فریجوں میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ این جی او ہر سال تین لاکھ ٹن خوراک ضرورت مندوں تک پہنچاتی ہے۔ یہ ایک کافر ملک کی بات ہے ایک ایسے ملک کی بات جس سے 56اسلامی ممالک کے عوام نفرت کرتے ہیں لیکن اس نفرت کے باوجود اگر ہم یہ آئیڈیا لے لیں اس پر عملدرآمد شروع کر دیں تو میرا خیال ہے ہمارے ایمان پر لکیر نہیں آئے گی ہمارے ملک میں بھی روزانہ سینکڑوں ہزاروں ٹن خوراک ضائع ہو تی ہے ۔ ہم صرف رمضان میں سحری اور افطاری کے وقت کتنی خوراک ضائع کرتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ اس پرریسرچ کرے تو اعداد و شمار ہزاروں ٹن سے اوپر چلے جائیں گے ۔ ہمارے ریستورانوں ہمارے فائیو سٹار ہوٹلوں ہماری دعوتوں اور ہماری پارٹیوں میں کتنا رزق ضائع ہوتا ہے اگر کوئی شخص جائزہ لے لے توکانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو جائے ہم لوگ رمضان میں جتنا بیسن، گھی اور چینی استعمال کرتے ہیں اتنا ہم مجموعی طور پر سال بھر میں خرچ نہیں کرتے اور ہم اس ایک مہینے میں جتنی کھجور کھاتے ہیں اتنی ہم پانچ سال میں استعمال نہیں کرتے ایک طرف تو یہ عالم ہے اور دوسری طرف ہر شہر کے اندر اور ہر شہر کے باہر ایسی ہزاروں کی آبادیاں ہیں جن میں زندگی کا ایک ہی مقصد ہے روٹی کی چاپ سننا اور خوراک کا راستہ دیکھنا۔ ہمارے ملک میں اس وقت ڈیڑھ کروڑ کے قریب ایسے لوگ ہیں جو سیلاب کی وجہ سے  کھلے آسمان تلے بھو کے پڑے ہیں ۔یہ درست ہے ہمارا ملک بہت پس ماندہ ہے۔ ہم غریب ،بے وسیلہ اور غیر منظم لوگ ہیں، ہم " فوڈ بینک جیسے ادارے نہیں بنا سکتے لیکن ہم فوڈ بینک جیسی چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں تو ڈال سکتے ہیں ہر شہر ،  ہر قصبے اور ہر محلے کے چند نوجوان مل کر ایسے چھوٹے چھوٹے ”فوڈ بینک“ تو بنا سکتے ہیں جو گھر گھر جا کر لوگوں کو سمجھا سکیں خوراک ضائع نہ کریں ، ہر محلے سے ایسے نوجوان باہر آئیں جو یہ سالن یہ روٹیاں اور یہ دس دس روپے ان لوگوں تک پہنچا سکیں جو اپنی اپنی دہلیزوں پر بیٹھ کر کھانے کا انتظار کر رہے ہیں جو اللہ کے دیئے رزق سے تھوڑا سا حصہ ان لوگوں تک پہنچا سکیں جو زندگی کی سخت چکی میں پس رہے ہیں اور اللہ کی مدد کا انتظار کر رہے ہیں ۔