قصور تو پروفیسر صاحب کا ہے

تحریر: ایچ-ایم-زکریا


سردار مہتاب عباسی 1997 میں کے پی کے (اس وقت صوبہ سرحد) میں وزیراعلیٰ تھے، یہ 12 اکتوبر کو سوات ڈویژن کے دورے پر تھے۔یہ سوات کی حدود میں داخل ہوئے تو ڈی آئی جی نے ان کا استقبال کیا، پولیس نے انھیں گارڈ آف آنر بھی دیا اور یہ انھیں پروٹوکول بھی دیتی رہی اور سیکیورٹی بھی، وزیراعلیٰ کی ریسٹ ہاؤس میں علاقے کے معززین کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی، ڈی آئی جی پیچھے کھڑا تھا اور پھر اچانک جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی۔ملک میں مارشل لاء لگ گیا، اسلام آباد سے حکم آیا اور وزیراعلیٰ کو سیلوٹ کرنے والے ڈی آئی جی ہی نے مہتاب عباسی کو گرفتار کر لیا اور اسی ریسٹ ہاؤس میں بند کر دیا،  سردار مہتاب عباسی پولیس کی بدلتی ہوئی نظریں زندگی بھر نہیں بھول سکے۔ انسان اپنی کمپنی (صحبت) سے سیکھتا ہے، ہم ان پانچ لوگوں کی اوسط ہوتے ہیں جن میں ہم اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں اور پولیس اہلکاروں کا زیادہ تر وقت جرائم پیشہ لوگوں کی صحبت میں گزرتا ہے چناں چہ یہ ذہنی طور پر سخت ہو چکے ہوتے ہیں۔آپ کبھی سرجن اور پولیس افسر کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھیں گے، کیوں؟ کیوں کہ خون، زخم، لاشیں اور جرائم دیکھ دیکھ کر ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں، یہ لوگ روتے نہیں ہیں اور جو لوگ روتے نہیں ہیں ان کو موٹی ویٹ کرنا اور ان سے انصاف مانگنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، دوسرا پولیس اہلکار زبردست ایکٹر ہوتے ہیں، آپ انھیں لیکچر دیں، یہ آپ کے سامنے بیٹھ کر ایسی ایکٹنگ کریں گے کہ آپ کو محسوس ہو گا یہ اندر سے بدل چکے ہیں لیکن جوں ہی دباؤ ہٹے گا آپ ان کا بدلتا ہوا رنگ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، پولیس کو سمجھانا، پولیس کو موٹی ویٹ کرنا اور ان کے کے سامنے انصاف کی دہائی دینا آسان کام نہیں۔گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں کے پشتو ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر یوسف جذاب اپنے بچوں کو سکول پہنچانے اور خود کالج بروقت پہنچنے کیلئے جا رہے تھے  کہ پولیس نے حضرت امام حسین ؓ کا چہلم کی وجہ سے  جگہ جگہ ناکہ بندی کر رکھی تھی، پولیس نے ان کو  ناکہ بندی پر روک لیا اپنا تعارف کرانے، بچوں کو سکول چھوڑنے اور اپنے ڈیپارٹمنٹ میں طلباء کا پیپر ہونے اور سپرنٹنڈنٹ ہونے سے آگاہ کرنے اور درخواست کرنے کے باوجود اُنہیں نہیں جانے دیا گیا اس دوران پولیس اور ڈیوٹی پر موجود ڈی ایس پی کے ساتھ ان کی بحث وتکرار بڑھ گئی تو پولیس نے وردی کے زعم میں آکر پروفیسر کو گریبان سے پکڑ کر تھپڑ مارے اور لاٹھی سے تشدد کا نشانہ بنایا اس واقعے کی ایک طالب علم نے وڈیو بھی بنائی جس پر طالب علم اور پروفیسر سے پولیس نے موبائل چھین کر قبضے میں لئے جبکہ پروفیسر کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر تھانے کے حوالات میں بند کردیا اس صورت حال کے بعد کالج کے سارے پروفیسرز گرفتار ساتھی سے ملنے اور واقعہ کی صورت حال جاننے کیلئے تھانے گئےبعد ازاں مذکورہ ٹیچر کو رہا کردیا  گیا۔اب پولیس نے پروفیسر کو رہا بھی کردیا اور پروفیسر حضرات کی یونین انصاف کی دہائی بھی دے رہی ہے لیکن کیا انصاف مل جائے گا میرا خیال ہے کبھی نہیں۔ پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا تو اس کے لیےاگر ہم نے اس سوسائٹی میں زندہ رہنا ہے تو  ہمیں اپنی زندگی میں کچھ نئی عادتیں ڈالنا ہوں گی۔چونکہ ہماری سوسائٹی بہت متشدد اور تنگ نظر ہے لہذا اس کے تشدد اور تنگ نظری سے بچنے کے لیے  میں نے بھی یہ عادتیں اپنی زندگی میں شامل کر لی ہیں‘ مثلاً میں یہ جان گیا ہوں آپ اگر عام شہری ہیں یا آپ عام شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں تو پھر آپ کو پولیس کے ناکوں پر رکنا بھی پڑے گا‘ اپنی اور گاڑی کی تلاشی بھی دینا ہوگی اور پولیس کی بدتمیزی بھی برداشت کرنا پڑے گی‘ اور کبھی ان سے بحث بھی نہیں کرنی ، آپ بھی یہ عادت ڈال لیں آپ بھی سکھی رہیں گے‘ آپ میری طرح پولیس کی مدد کے بغیر زندگی گزارنے کا طریقہ بھی سیکھ لیں‘ آپ چھوٹے بڑے نقصان پر پولیس سے رابطہ نہ کریں‘ چپ چاپ نقصان برداشت کر لیا کریں‘ آپ اپنے تنازعے بھی تھانے سے باہر سیٹل کرنے کی عادت ڈال لیں‘ آپ سے زیادتی ہوئی تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لیں‘ کسی اور نے زیادتی کر دی تو سرجھکا کر گھر واپس چلے جائیں۔ زندگی اچھی گزرے گی‘آپ اگر اس کے برعکس تھانے جانے یا ایف آئی آر درج کرانے کی غلطی کر بیٹھے تو پھر آپ کی خواری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا‘ آپ کسی کام کے نہیں رہیں گے‘ آپ اسی طرح عدالتوں سے پرہیز کی عادت بھی ڈال لیں‘ آپ عدالت گئے نہیں اور آپ کی زندگی کے دس پندرہ سال اور دس بیس لاکھ روپے ضایع ہوئے نہیں لہٰذا آپ کے خلاف کوئی پرچہ ہوجائے تو آپ دوسرے فریق کے پاؤں پڑ جائیں‘ وہ جو مانگے آپ دے دیں اور جان چھڑا لیں اور اگر آپ کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو آپ یہ زیادتی برداشت کر جائیں‘ آپ اس پر قانون اور انصاف کا نمک چھڑکنے کی غلطی نہ کریں‘ آپ کی زندگی ضایع ہونے سے بچ جائے گی‘ آپ اگر اسی طرح ذاتی رائے رکھتے ہیں توپھر آپ اس رائے کو اپنی حد تک رکھنے کی عادت ڈال لیں‘ آپ اپنی رائے کسی کے ساتھ شیئر کرنے کی غلطی نہ کریں کیونکہ یہ غلطی آپ کا سر کھلوانے کے لیے کافی ہو گی۔

آپ دوسروں کے ہاتھوں بے عزت بھی ہوں گے اور پھینٹا بھی کھائیں گے‘ آپ اسی طرح اگر سیدھی زندگی گزار رہے ہیں‘ سچ بول رہے ہیں‘ پورا ٹیکس دے رہے ہیں‘ قانون کی پابندی کر رہے ہیں ‘ قطار میں کھڑے ہوتے ہیں‘ دوسروں کے ساتھ شائستگی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور آپ اگر عام زندگی میں منکسرالمزاج ہیں تو پھر آپ ان غلطیوں کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں‘ پھرآپ کا مذاق بھی اڑایا جائے گا‘۔آپ کسی قیمت پر کسی عالم دین سے کوئی مذہبی سوال بھی نہ پوچھیں‘ وہ جو فرما رہے ہیں آپ چپ چاپ سن لیں اور ان کی کسی بات پر اعتراض نہ کریں‘ آپ اچھی زندگی گزاریں گے‘  اور آپ اگر اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر آپ گندہ دودھ‘ جعلی ادویات‘ ملاوٹ زدہ خوراک‘ سیوریج کے پانی‘ لوڈ شیڈنگ‘ مہنگی تعلیم‘ پرائیویٹ علاج‘ سڑکوں اور محلوں میں کچرے اور جعلی جمہوریت کی عادت بھی ڈال لیں‘ آپ ان کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ تسلیم کر لیں‘ آپ کی زندگی اچھی گزرے گی۔ آپ اگر اسی طرح کتابیں پڑھتے ہیں‘ فلمیں دیکھتے اور موسیقی سنتے ہیں اور آپ کو اگر آرٹ اور کلچر کے ساتھ دلچسپی ہے‘ آپ اگر صفائی پسند ہیں اور آپ کو اگر روحانیت میں انٹرسٹ ہے تو پھر آپ اپنی ان تمام دلچسپیوں کو خفیہ رکھنا سیکھ لیں‘ آپ کی زندگی اچھی گزرے گی ورنہ آپ کسی نہ کسی دن کسی کے ہاتھوں مارے جائیں گے یا پھر مسلسل بے عزت ہوں گے‘ آپ کوشش کریں آپ جتنا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں آپ اس سے زیادہ (نعوذ باللہ) اپنے دائیں بائیں موجود لوگوں سے ڈریں‘یہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ خود کو خدا سے بڑا سمجھتے ہیں۔ آپ نے اگر ان انسانی خداؤں سے ڈرنے کی عادت نہ ڈالی تو آپ کی عزت‘ عزت نفس اور جان تینوں غیر محفوظ ہو جائیں گی‘ آپ کسی نہ کسی سچے مسلمان کے ایمان کا لقمہ بن جائیں گے اور آخری مشورہ آپ کوشش کریں آپ کسی کے ساتھ بحث نہ کریں‘ لوگ جو فرما رہے ہیں آپ چپ چاپ سن لیں‘ آپ کوئی اعتراض نہ کریں‘ آپ کی جان‘ مال اور عزت تینوں محفوظ رہیں گی ورنہ دوسری صورت میں آپ کے ساتھ وہی ہوگا جو اس وقت 

پروفیسر ڈاکٹر یوسف جذاب کے ساتھ ہوا ہے۔