حادثات
سے نمٹنے کی چندعملی تجاویز
تحریر:
ایچ-ایم-زکریا
پاکستان
میں سیلاب آج کا ایشو نہیں ہے، اس خطے میں 11 لاکھ سال سے ساون کا موسم آ رہا ہے،
مہا بھارت، پران اور گیتا میں بھی بارشوں اور سیلابوں کی تباہی کا ذکر ہے، سینٹرل
ایشیا سے دس ہزار سال سے طالع آزما ہندوستان آ رہے ہیں لیکن یہ بھی جولائی کا
مہینہ شروع ہوتے ہی مون سون سے قبل بھارت سے نکل جاتے تھے، محمود غزنوی نے
ہندوستان پر 17 حملے اس لیے کیےکیوں کہ وہ بھی ہر مون سون سے پہلے ہندوستان سے واپس دوڑ
جاتا تھا، اس خطے کی تاریخ ہے یہاں جولائی، اگست اور ستمبر کے دوران کوئی سیاسی،
عسکری اور سفارتی مہم کام یاب نہیں ہوئی، پاکستان اور بھارت بھی مون سون میں بنے
تھے۔مہاجرین کو اس دوران کیا کیا مصیبتیں جھیلنا پڑیں تاریخ آج تک اس پر آنسو بہا
رہی ہے لہٰذا بارش کی مصیبت اگر اچانک آئے تو یہ شاید واقعی مسئلہ ہو لیکن یہ عذاب
اگر ہزاروں لاکھوں سالوں سے آ رہا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم نے اب تک اس
کے تدارک کے لیے کیا کیا؟ ہماری تیاریاں اور بندوبست کہاں ہیں؟ سوال
یہ ہے چین ہو، ایران ہو، ترکی ہو، ملائیشیا ہو یا پھر باقی دنیا ہو سیلاب، زلزلے
اور خشک سالی وہاں بھی آتی ہے لیکن یہ اپنے لوگوں کو ان آفتوں سے بچا بھی لیتے ہیں
اور دوسروں کی مدد کے بغیر انھیں بحال بھی کر دیتے ہیں، کیسے؟ جب کہ ہم ہر آفت، ہر
مصیبت میں اپنے لوگوں کو موت کے حوالے کر کے، امداد، امداد کی صدائیں لگانے کے لیے
نکل کھڑے ہوتے ہیں، ہم ملک
کے کونے کونے میں امدادی کیمپ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور لیڈر کشکول اٹھا کر ملکوں
ملکوں پھرنے لگ جاتے ہیں، ہم اسے بھی بھیک کا بہانہ بنا لیتے ہیں، کیوں؟ کیا دوسری اقوام
"سپر ہیومین " ہیں یا پھر ہم انسانوں کی کوئی پست ترین شکل ہیں، ہمارا
آخر ایشو کیا ہے؟ہم شاید آج تک اپنی قوم کو آفتوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں
کر سکے، آگ لگ جائے، پانی آ جائے یا کوئی کسی حادثے کا شکار ہو جائے، ہم میں سے
کسی شخص کو اس سے نبٹنا نہیں آتا،تو اس قسم کے ڈیزاسٹر سے نمنٹنے کے لیے ہمیں انفرادی
اور اجتماعی طور پر مندرجہ ذیل کام کرنا ہوں گے کچھ کام حکومت وقت کے ہوں گے اور
کچھ کام ہم لوگ خود انفرادی اور اجتماعی طور پر کر سکتے ہیں۔ملک میں اڑھائی لاکھ
سے زائد اسکول(پرائمری، مڈل اور سیکنڈری ملاکر) اورساڑھے تین کروڑ سے زائد طالب
علم بھی ہیں، اور مختلف جماعتیں اور
تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں ہم اگر ان سٹوڈنٹس، تنظیموں اور اداروں کے کارکنوں کے لیے ریسکیو
ورک کی ٹریننگ لازمی قرار دے دیں، ہم اگر انھیں آگ بجھانے، زخمیوں کو اٹھانے،
سیلاب میں گھرے لوگوں کو نکالنے اور ضرورت مندوں تک خوراک پہنچانے اور بیماروں اور
زخمیوں کی مدد کی ٹریننگ دے دیں اور ان سب کی فہرستیں اپنے پاس رکھ لیں اور ضرورت
کے وقت انھیں طلب کر کے کام پر لگا دیں تو ہمارے پاس دو چار کروڑ لوگوں کی فورس
تیار ہو جائے گی۔ہم اگر ملک بھر کے 18 سال سے30 سال کے جوانوں ہی کو ڈیزاسٹر مینجمنٹ سکھا دیں تو بھی ہمیں دنیا
کی امداد کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا ۔دنیا
کے بے شمار ملکوں میں ہر گھر میں ڈیزاسٹر اور ری پیئرنگ کے آلات ضرور ہوتے ہیں، ہم
بھی اپنے گھروں میں رسے، سیڑھیاں، فالتو بالٹیاں، ہتھوڑیاں اور گینتیاں رکھ لیں ۔
ہم یہ اصول ہی بنا لیں ملک کا ہر مڈل اور امیر کلاس شخص اپنے گھر میں ایک ٹینٹ
ضرور رکھے گا اور وہ یہ مشکل کے وقت متاثرہ علاقوں میں بھجوا دے گا، ہم ٹینٹ
مالکان کی فہرستیں مختلف این جی اوز کو دے دیں اور این جی اوز کے کارکن ضرورت کے
وقت ٹینٹ جمع کر کے متاثرین تک پہنچا دیں۔ ہم خود ہی محلے اور علاقے کی سطح پر دس پندرہ فیملیوں کے گروپ بنا کر لوگوں کو
ٹریننگ دینا شروع کر دیں، دس دس، بیس بیس خاندانوں کی این جی اوز بنا کرلوگوں کو
ریسکیو ورک کی ٹریننگ دینا شروع کردیں تو معاشرے کی حالت بدلنا شروع ہو جائے گی۔ اور مہربانی فرما
کر اپنے گھر اونچی جگہوں پر بنا لیا کریں اور چھت پر ممٹی بنا کربرسات کے موسم میں
اس میں پانی، خوراک، ٹینٹ اور ایندھن محفوظ کر لیا کریں تاکہ ناگہانی صورت حال میں
آپ اور آپ کا خاندان کم از کم دو چار دن تو نکال سکے اور آپ یہ بندوبست کرنے کے بعد
دوسرے لوگوں کو بتا اور سمجھا دیا کریں تاکہ یہ بھی آفتوں سے بچ سکیں۔ہم بارش سے
پہلے اپنے پرنالے، پائپ، نالیاں، گٹڑ، جوہڑ، ندیاں، جھیلیں اور ڈیم چیک کریں، حکومت
پاکستان مارچ میں بارشوں اور سیلابوں کی وارننگ جاری کرنا شروع کردیتی ہے اس الرٹ
پر نہ تو عوام کان دھرتے ہیں اور نہ ہی
حکومت اپنے اس اعلان کو سیریس لیتی ہے
لیکن اب جب بھی کوئی الرٹ جاری ہو تو لوگوں کو سیلاب سے پہلے گزر گاہوں سے
دور ہٹانے اور مال مویشی بلند جگہوں پر لے جانے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی
طور پرعملی کام کرنا ہوگا جیسا کہ نوشہرہ
کی بیورکریٹ اے ڈی سی مس قرۃ العین وزیر صاحبہ
نے کیا جو نہ صرف قابل ستائش بلکہ قابل تقلید ہے، ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ہم
خودعلاقے کی سطح پر گروپس بنا کرآبی گزرگاہوں کا جائزہ لیں اور جہاں جہاں رکاوٹ
نظر آئے اسے ہٹا دیں ، لوگوں کو محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں بھی بتا دیا جائے اور ہمیں
آبی گزر گاہوں پر مکان، ڈیرے اور باڑے بنانے سے گریز کرنا ہوگا ، دریاؤں اور نہروں
کے کناروں پر فصلیں اگانے پر پابندی لگانی ہوگی۔ہم اگر ایک ہی بار چھوٹے چھوٹے
ڈیمز، نالے اور جھیلیں بنا دیں تو ہم عوامی نقصان اور ہر سال کے خرچے دونوں سے بچ
جائیں گے، دیہی علاقوں کے گھروں میں گہرے کنوئیں بنا لیے جائیں اور ان کی صفائی کا بھی خیال رکھا جائے تو جب پانی آئے گا
تو یہ کنوئیں پانی کو سٹور کرنے میں اہم کردار اد کریں گے۔ سیلابی بہاؤ پر جھیلیں،
جوہڑ اور نالے بناتے چلے جائیں تاکہ جب پانی آئے تو یہ سیکڑوں نالوں، جوہڑوں اور
جھیلوں میں تقسیم ہو جائے اور یوں اس کی تندی ختم ہو جائے گی، ہندوستان میں بھی ہزاروں سال تک باؤلیاں اور
تالاب بنائے جاتے تھے۔آج بھی اس کی ضرورت ہے ۔ہماری بھی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اپنے
ڈیمز، جھیلیں اور ذخیرہ گاہیں بھی ہونی چاہییں، ان سے زیرزمین پانی کا لیول بھی
بڑھے گا، جانوروں اور پودوں کو بھی پانی ملے گا اور ماحول بھی صاف ستھرا ہو جائے
گا، ہم ہر سال کروڑوں کیوسک پانی ضایع بھی کرتے ہیں، یہ پانی بستیاں اور شہر بھی
بہا لے جاتا ہے اور ہم لوگوں کی بحالی اور امداد پر بھی اربوں روپے خرچ کرتے ہیں
اور یہ اخراجات ایک مستقل عمل ہے۔پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور تک رضا کار
اور این سی سی جیسے پروجیکٹ ہوتے تھے، ضلعی انتظامیہ ہر شہر سے رضا کار بھرتی کرتی
تھی، یہ لوگ مشکل وقت میں پولیس اور سول انتظامیہ کی مدد کرتے تھے، یہ پروجیکٹ آج
بھی چل رہا ہے لیکن صرف کاغذوں میں، کالجوں میں این سی سی کے ذریعے طالب علموں کو
ملٹری ٹریننگ دی جاتی تھی، ٹریننگ مکمل کرنے والے طالب علموں کو 20 نمبر اضافی
ملتے تھے، یہ دونوں پروجیکٹ شان دار تھے۔حکومت اگریہ دونوں ادارے بحال کر دے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے
۔ہم گاڑیوں میں آگ بجھانے کے سلینڈرز، کمبل، ٹارچ، رات کے وقت چمکنے والی جیکٹس
اور اضافی خوراک لازم رکھ دیں ۔ حکومت
اگر ایمرجنسی، ریلیف اور بحالی کو بچوں کے سلیبس میں بھی شامل نہیں کرتی تو
پاکستان سٹڈیز، اردو اور ہیلتھ ایند فزیکل ایجوکیشن کے ٹیچر ان ٹاپکس کو اسکولوں
اور کالجز میں لازمی مضمون کی طرح پڑھائیں تاکہ نوجوانوں کو بحالی، ریلیف اور ایمرجنسی کا علم ہو سکے۔سکولز
اور کالجز کے پرنسپلزریسکیو1122 کے لوگوں کو اپنے سکولز، کالجز میں بلا ئیں اور یہ لوگ سٹوڈنٹس کو ایمر جنسی ،
ریلیف اور بحالی کے کام پریکٹیکل کروائیں ۔ یورپ میں دو سو سال پہلے سیلاب آئے تھے
اور 28ملکوں نے اپنے اسکولوں میں سوئمنگ کو لازمی قرار دے دیا تھا، آج یورپ کا ہر
شخص تیرنا جانتا ہے۔ہندوستان میں بھی پانچ سو سال پہلے تک پچاس فیصد لوگوں کو
تیراکی آتی تھی، یہ سلسلہ مغلوں کی حکومت کے بعد بند ہو گیا، مغل پہاڑی علاقے سے
آئے تھے، یہ تیراکی نہیں جانتے تھے چناں چہ انھوں نے اس پر توجہ نہیں دی اور یوں
یہ روایت ختم ہو گئی۔ہم آج یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ آج ہمارے ہر دیہاتی اور قصباتی ایریاز
میں پولز ہیں اور گرمیوں میں یہاں کافی رش بھی ہوتا ہے تو ہم لوگ اپنے تمام بچوں کے
لیے سوئمنگ ڈسپلن میں لے آئیں ، بچے مختلف اوقات میں سوئمنگ سیکھیں، یہ بچے دو چار
سال بعد تیراکی کی بہت بڑی فورس بن جائیں گے اور یہ اپنی اور اپنے خاندان کے ساتھ
دوسروں کی جان بھی بچا لیں گے۔ہم آج سے ملک میں مخیر حضرات اور فیملیز کا ڈیٹا اور
ٹیلی فون ہی جمع کر لیں تا کہ مصیبت کی گھڑی میں ہمیں چندے کے لیے اپیلیں نہ کرنا پڑیں
، کیمپ نہ لگانیں پڑیں۔ہم من حیث القوم پلاننگ اور عقل دونوں سےکام لیں تو ہم دنیا
کی بہترین قوم بن سکتے ہیں بس ایک دوسرے پر تنقید اور کیچڑ اچھالنے سے ہمیں اگر فرصت مل جائے۔اگر ہمیں ہجوم نہیں
قوم بننا ہے تو ہم سب کو مل کریہ کام کرنا
پڑے گا۔
.jpg)
0 Comments