ڈیم کیوں ضروری
ہیں؟
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
میاں والی شہر سے 20 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہےجسے
کالا باغ کہا جاتا ہےاس قصبے میں پاکستان بننے سے پہلے بے شمار کیلوں کے باغ تھے،
کیلوں کے یہ باغ دور سے سیاہ رنگ کے باغ
دکھائی دیتے تھے چنانچہ سیاہ رنگ کے ان باغوں کی وجہ سے یہ شہر کالا باغ بن گیا۔ یہ قصبہ دو
حوالوں سے پوری دنیا میں مشہور ہوا، اس کا پہلا حوالہ مغربی پاکستان کے گورنر نواب
آف کالا باغ ملک محمد امیر خان تھے۔یہ صدر ایوب خان کے دور میں موجودہ پاکستان کے
گورنر تھے۔ اس خطے کی دوسری وجہ شہرت کالا
باغ ڈیم ہے۔کالا باغ کے مقام پر پہنچ کر دریائے سندھ نیچرل ڈیم بن جاتا ہے ، لہذا
1953 میں عالمی ماہرین نے اس جگہ کو ڈیم کے لیے موزوں قرار دے دیا۔ 1960 میں صدر ایوب خان نے انڈیا کے ساتھ سندھ
طاس معائدہ طے کیا اس معائدے کی رو سے راوی، ستلج اور دریائے بیاس کا پانی 8 کروڑ
روپے میں انڈیا کو بیچ دیا تھااور اس کے بدلے میں پاکستان کو کالا باغ ڈیم بنانے
کی اجازت مل گئی۔لیکن کام شروع ہونے سے پہلے ہی ایوب خان کی حکومت ختم ہو گئی ،
یحییٰ خان کا دور آیا تو ملک دو لخت ہوگیا، بھٹو صاحب آئے تو وہ داخلی سیاست میں
الجھ گئے ، جنرل ضیاءالحق آئے تو افغان وار شروع ہو گئی یوں کالا باغ التوا کا
شکار ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ 1984 میں جنرل ضیاءالحق نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر
شروع کروادی اس دور میں ایک دل چسپ واقعہ
پیش آیا اور یہ ڈیم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے متنازعہ بن گیا ۔ حکومت نے سروے کے لیے ایک
برطانوی کمپنی ہائر کی تھی اس کمپنی کے نوٹس میں یہ بات آئی کہ 1929 میں دریائے
سندھ میں ایک خوفناک سیلاب آیا تھا اور نوشہرہ شہرپانی میں ڈوب گیا تھا ، یہ کمپنی یہ اندازہ لگانے کے لیے
کہ نوشہرہ شہر میں کتنا پانی آیا تھا اور اس کی سطح کیا تھی یہ لوگ شہر میں چلے
گئے ۔ کمپنی نے شہر میں گزرے سیلا ب کا اندازہ لگانے کے لیے مکانوں کے اوپر نشان
لگانے شروع کر دیے ، یہ نشان دیکھ کر نوشہر ہ شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ اگر
کالا باغ ڈیم بن گیا تو جہاں تک نشان لگائے جار ہے ہیں یہاں تک سیلاب آئے گا اور
نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا ۔اس وقت اے این پی افغان وار کی وجہ سے جنرل ضیا ءالحق کے
خلاف تھی چنانچہ اے این پی نے اس ایشو کو اٹھا لیا، یوں کالا باغ ڈیم کی تعمیر رک گئی ۔ 1984 سے آج
2022 تک بے شمار حکومتیں آئیں انہوں نے کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا یہ
حکومتیں گھر چلی گئیں لیکن کالا باغ ڈیم نہ بن سکا۔کالا باغ ڈیم کے پاکستان کو کیا
فوائد مل سکتے ہیں؟ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ ڈیم بن گیا تو ملک کو سالانہ 42
ارب روپے کی آمدنی ہو گی جبکہ 40 ارب روپے کے قریب ہمارا زرمبادلہ بھی بچے گا۔
ہمارا بجلی کا شارٹ فال 5ہزار 85 میگا واٹ ہے یہ ڈیم ہمیں 5ہزار میگا واٹ بجلی بھی
فراہم کرے گا، ہم اس ڈیم میں 70 لاکھ ایکڑ مکعب فٹ پانی جمع کر سکتے ہیں جس کا فائدہ
لازما ہماری زراعت کو ہوگا ،۔ہمارا دولاکھ 30 ہزار ایکڑ مکعب فٹ پانی سالانہ سمندر
میں ضائع ہو جاتا ہے اس ڈیم سے یہ پانی بھی بچ جائے گااور عالمی بینک ڈیم کی تعمیر
کے لیے ہمیں 7 بلین ڈالر دینے کے لیے تیار ہے ہمیں یہ قرضہ بھی مل جائے گا۔ دنیا
بھر کے ماہرین یہ دعوی کر چکے ہیں کہ اس ڈیم سے نوشہرہ، مردان اور ڈی آئی خان کوبھی
کوئی خطرہ نہیں اس سے سندھ کی زمینیں بھی
متاثر نہیں ہوں گی اور یہ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے کیونکہ اگر یہ
ڈیم نہ بنا تو پاکستان بجلی کے بحران کے ساتھ ساتھ سیلابوں کا شکار تو ہے ہی ساتھ
قحط سالی کا شکار بھی ہو جائے گا۔پاکستان میں سیلاب آج کا ایشو نہیں ہے‘اس خطے میں 11 لاکھ سال سے
ساون کا موسم آ رہا ہے‘ مہا بھارت‘ پران اور گیتا میں بھی بارشوں اور سیلابوں کی
تباہی کا ذکر ہے‘ سینٹرل ایشیا سے دس ہزار سال سے طالع آزما ہندوستان آ رہے ہیں
لیکن یہ بھی جولائی کا مہینہ شروع ہوتے ہی مون سون سے قبل بھارت سے نکل جاتے تھے۔ یہ
ہماری تاریخ ہے اورتاریخ آج تک اس پر آنسو بہا رہی ہے لہٰذا بارش کی مصیبت اگر
اچانک آئے تو یہ شاید واقعی مسئلہ ہو لیکن یہ عذاب اگر ہزاروں لاکھوں سالوں سے آ
رہا ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے ہم نے اب تک اس کے تدارک کے لیے کیا کیا؟ ہماری
تیاریاں اور بندوبست کہاں ہیں؟ ہم لوگوں کی بحالی اور امداد پر بھی اربوں روپے خرچ
کرتے ہیں اور یہ اخراجات ایک مستقل عمل ہے،ہم اگر ایک ہی بار چھوٹے چھوٹے ڈیمز‘
نالے اور جھیلیں بنا دیں تو ہم عوامی نقصان اور ہر سال کے خرچے دونوں سے بچ جائیں
گے۔

0 Comments