ڈیپریشن سے نجات کیسے پائیں
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
امریکا کے ایک اولڈ پیپلز
ہوم میں خوفناک بیماریوں کے شکار بوڑھے رہتے تھے۔ یہ چند مہینوں کے مہمان بوڑھے
تھے اس اولڈ پیپلز ہوم میں آنے والے تمام مہمان جانتے تھے کہ یہ اب زیادہ عرصے تک
دنیا کی رونقیں نہیں دیکھ سکیں گے ،اولڈ ہوم کا سٹاف بھی ان مہمانوں کی منزل سے
واقف تھا یہ بھی ان مریضوں کی دل و جان سے کئیر کر تا تھا لیکن پھر یونیورسٹی کے
ایک پروفیسر نے ان مہمانوں پر ایک نفسیاتی تجربہ کیا یہ پودوں کے چند گملے لے کر
ہوم میں پہنچا، اس نے بوڑھے مریضوں کے دو گروپ بنائے اور یہ پودے دونوں گروپوں میں
تقسیم کر دیئے۔ پروفیسر نے ایک گروپ کو بتایا کہ پودے آپ کی ذمہ داری ہیں ان کو
پانی دینا ،دھوپ میں رکھنا ،ان کو کھاددینا، ان کی گوڈی کر نا، ان کو سردی اور
گرمی سے بچانا اور ان کو کیڑوں،مکھیوں اور پرندوں سے محفوظ رکھنا آپ لوگوں کی
ڈیوٹی ہے جبکہ دوسرے گروپ سے کہا گیا ہم نے یہ پودے محض آپ کے کمرے میں رکھ دیئے
ہیں ، آپ چاہیں تو ان کی ذمہ داری اٹھا لیں نہ چاہیں تو نہ اٹھائیں۔ پروفیسر نے
پودے حوالے کئے اور دونوں گروپوں کی سرگرمیوں کا جائز لینا شروع کر دیا۔ گروپ ون
کے بوڑھوں نے پودوں کی ٹیک کئیر شروع کر دی ان میں سے کچھ بابوں اور مائیوں نے
گملوں کو پانی دینا شروع کر دیا۔ کچھ ان کی گوڈی کرتے تھے کچھ ان میں کھاد ڈالتے
تھے۔ پھر انہیں موسموں سے بچاتے تھے اور کچھ انہیں مکھیوں ،مچھروں اور پرندوں سے
محفوظ رکھتے تھے ۔ پروفیسر نے مریض بوڑھوں کی جسمانی صورتحال کو بھی تبدیل ہوتے
دیکھا اس نے دیکھا پودے ملنے سے قبل یہ لوگ سارادن بستر پر گزارتے تھے۔ یہ چڑچڑے
اور بد مزاج بھی تھے اور یہ معمولی معمولی باتوں پر غصے سے بھی بھڑ ک اٹھتے تھے
لیکن پودے ملنے کے بعد ان کا مزاج تبد یل ہونے لگا ہے ان کا مزاج خوش گوار ہو گیا۔ یہ ایک
دوسرے کے ساتھ اور طبی عملے کے ساتھ شائستگی سے گفتگو کرنے لگے ہیں، انہیں پہلے کے
مقابلے میں بھوک بھی زیادہ لگنے لگی ہے، یہ بستر سے اتر کر چہل قدمی بھی کرنے لگے ہیں اور ان کا دواؤں پر بھی انحصار کم ہونے لگا
ہے ان کے دردوں میں بھی کمی آگئی اور یہ
جسمانی لحاظ سے بھی فٹ ہو گئے جبکہ ان کے مقابلے میں دوسرے گروپ کے لائف سٹائل میں
کوئی فرق نہیں آیایہ لوگ اسی طرح سارا سارا دن بستر پر پڑے رہتے تھے اور طبی عملے
اور ساتھی مریضوں کے ساتھ جھگڑتے بھی تھے۔ یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا پروفیسر
نے سال کے بعد جب دونوں گروپوں کی شیٹ بنائی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا گروپ ون
کے لوگ گروپ ٹو کے مریضوں سے جسمانی اور طبی لحاظ سے بھی اچھے تھے اور ان کے مرنے
کی شرح بھی کم تھی۔ پروفیسر نے دیکھا گروپ ٹو کے 30 فیصد مریض گروپ ون کے مریضوں اور
بوڑھوں کے مقابلے میں جلد فوت ہو گئے۔ یہ ایک حیران کن سٹڈی تھی جس کے آخر میں
پروفیسر نے نتیجہ نکالاکہ گروپ ون کے بوڑھوں کو
زندگی کا مقصد مل گیا تھا جبکہ گروپ ٹو کے مریضوں کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں
تھا چنانچہ ان کی طبی اور نفسیاتی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پروفیسر کا
کہنا تھاز ند گی جب کسی دوسری زندگی کا بوجھ اٹھا لیتی ہے تو اس کی قوت برداشت اور
ہمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پہلی زندگی خوش گوار بھی ہو جاتی ہے اور مضبوط بھی۔ آپ
اگر اپنی زندگی کو اس سٹڈی میں رکھ کر دیکھیں تو آپ کو اپنی تمام کو تاہیوں،خرابیوں
کمیوں اور ڈپریشن کا جواب مل جائے گا۔ ہماری زندگی میں جب کوئی مقصد، کوئی گول
آجاتا ہے تو ہماری قوت مدافعت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے جسم میں طاقت بھی آجاتی
ہے اور ہمارا مزاج بھی خوش گوار ہو جاتا ہے اور ہم اگر بے مقصد یت کا شکار ہو
جائیں ، ہم یہ محسوس کرنے لگیں ہم نے جو کچھ کر نا تھا ہم نے کر لیا تو اس کے بعد
ہم خود کو زمین کا بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور یہ سوچ ہمیں بستر مرگ تک پہنچا دیتی
ہے ۔ مقصد یا گول کی کمی ہمارے جسم ،ہمارے دل اور ہمارے دماغ میں خلاء پیدا کر
دیتی ہے۔ یہ خلاء ہمیں آہستہ آہستہ اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے اور یہ کھوکھلا پن
بعدازاں مختلف بیماریوں اور مختلف عارضوں کا گھر بن جاتا ہے۔ آپ نے اکثر سرکاری
ملازموں ،فوجی جرنیلوں اور پولیس کے اعلی عہدیداروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد تیزی سے
بوڑھا ہو تا دیکھا ہو گا یہ لوگ سروس کے آخری دن تک ہشاش بشاش اور سمارٹ ہوتے ہیں،یہ
قہقہے بھی لگاتے ہیں اور روز جاگنگ بھی کرتے ہیں لیکن آپ انہیں ریٹائر منٹ کے ایک
سال بعد دیکھیں تو آپ کیلئے انہیں پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے ان میں سے نوے فیصد
داڑھیاں رکھ لیتے ہیں ان کے ماتھوں پر مہراب کے نشان ہوتے ہیں ، مسجد کی صف اول
میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں ،ان کی کمر جھکی ہوتی ہے ان کی نظر خراب ہو چکی ہوتی ہے یہ
دل کے دو دو آپریشن کرا چکے ہوتے ہیں۔ یہ صبح دوپہر اور شام پانچ پانچ گولیاں
کھاتے ہیں اور یہ آیات کا حوالہ دےدے کر نوجوانوں کو ڈرا رہے ہوتے ہیں۔ نمازپڑھنے
کا جینوئن طریقہ بھی سمجھا رہے ہوتے ہیں ،قرآن مجید پڑھنا ،نمازیں ادا کر نا، عمرے
کر نا ،داڑھی رکھنا اور شلوار قمیض پہننا انتہائی شاندار سرگرمی ہے لیکن اس شاندار
سرگرمی کیلئے ریٹائرمنٹ کا انتظار کر نا ضروری نہیں ہوتا۔ آپ کو یہ تمام کام پندرہ
سولہ سال کی عمر میں شروع کر دینے چاہئیں لیکن ہمارے نوے فیصد بیورو کر یٹ ،فوجی
افسر اور سول محکموں کے اعلی عہدیداروں کو اس کا احساس ریٹائرمنٹ کے بعد ہوتا ہے
کیوں؟ اس کی و جہ فرار یت ہے۔ یہ لوگ ریٹائر منٹ تک ایکٹو ہوتے ہیں لیکن ریٹائر
منٹ کے بعد انہیں اپنا آپ فضول اوربے مقصد محسوس ہونے لگتا ہے چنانچہ یہ موت سے
بچنے کیلئے ہسپتالوں اور مسجدوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ڈاکٹروں اور
مولویوں کے قابو میں آجاتے ہیں عمر کے اس حصے میں اگر انہیں عالم قسم کے مولوی مل
جائیں تو ان کی آخرت سنور جاتی ہے اور اگر یہ اس عمر میں کسی نیم پختہ عالم کے
قابو آجائیں تو انہیں وظائف اور عبادات میں بھی سکون نہیں ملتا یہ زندگی میں مزید
تنگ ہو جاتے ہیں ۔ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ بے مقصدیت ہے ہم چھوٹے ہوتے ہیں
تو ہماری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہو تا ہم بڑے ہو جاتے ہیں، ہم جوان ہو جاتے ہیں
اور ہم بوڑھے ہو جاتے ہیں لیکن ہماری زندگی میں کوئی مقصد، کوئی گول نہیں آتا۔ ہم
بچپن اور جوانی تعلیم میں صرف کر دیتے ہیں۔ یہ تعلیم ہمیں ڈگری دے دیتی ہے اور ہم
اس ڈگری کی بنیاد پر نوکری بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہ نوکری کی ڈگری اور یہ
تعلیم بھی ہماری زندگی کو با مقصد نہیں بناتی، یہ ہمارے جسم ہمارے ذہن اور ہماری
روح میں جذبے نہیں جگاتی، چنانچہ ہم اس بے مقصد یت کی وجہ سے زندگی میں بور ہوتے
رہتے ہیں ، ہم پریشان اور چڑ چڑے ہوتے جاتے ہیں آپ نے اس ملک کے اکثر لوگوں کے
چہرے پر ایک خاص قسم کی بے زاری دیکھی ہو گی یہ بے زاری دراصل مقصد کی کمی ہے۔ ہم
سب لوگ اندر سے خالی ہیں اور اس خلاء نے ہمیں ڈپریشن کا مریض بنارکھا ہے ۔ ہم ایک
دوسرے سے الجھ بھی رہے ہیں گولیوں اور ڈاکٹروں کے سہارے پر بھی چلے گئے ہیں
پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ ادویات استعمال ہوتی ہیں ہم میں سے ہر دوسرا شخص
کوئی نہ کوئی گولی ،کوئی نہ کوئی پڑیا اور کوئی نہ کوئی شربت پی رہا ہے اور ہم سے
زیادہ تر لوگ عمر
سے پہلے بوڑھے ہو رہے ہیں اور اس کی واحد وجہ مقصد کی کمی ہے۔ ہم نے آج تک اپنی
ذاتی اور اپنی قومی زندگی کا کوئی مقصد طے نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے ہم اگر آج اپنی
زندگی کا کوئی مقصد طے کر لیں، یہ مقصد خواہ پھول اگا نےاور اپنے ماحول کو صاف کر
ناہی کیوں نہ ہویاروتے ہوئے بچوں کو
ہنساناہی کیوں نہ ہو توکل ہماری زندگی کی شکل تبدیل ہو جائے گی اور ہم ڈاکٹروں سے
بھی بچ جائیں گے ،بڑھاپے سے بھی، چڑ چڑے پن سے بھی اور انگزائیٹی اور ڈیپریشن سے
بھی نکل آئیں گے۔ ہماری زندگی عذاب نہیں رہے گی زندگی ہو جائے گی۔

0 Comments