وسیب میں سیلاب کی تباہ کاریاں

تحریر: ایچ-ایم-زکریا




 فرانس کے شہر پیرس میں 21 جنوری 1910 ء کو خوفناک سیلاب آیا، یہ فرانس کی تاریخ کا بد ترین سیلاب تھا، 10 19 ء میں جنوری کے اوائل میں پیرس میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں دریائے سین میں سیلاب آگیا اور اس نے پورے پیرس کو تباہ کر کے رکھ دیا اس سیلاب سے پیرس کے دو لاکھ لوگ متاثر ہوئے، 12 سو کلو میٹر رقبہ تباہ ہوا ایک دن میں 20 ہزار عمارتیں تباہ ہوئیں اور 400 ملین فرانک (فرانس کی کرنسی فرانک کہلاتی ہے)کا نقصان ہوا ہم اگر اس نقصان کو ڈالرز میں دیکھیں تو یہ 1.5 بلین ڈالر بنتے ہیں لیکن یہ فرانس کا آخری سیلاب تھا جس نے پورے ملک کو ،جان اور مال کا نقصان پہنچایا ،فرانس میں اس کے بعد بھی 23 سیلاب آئے لیکن یہ سیلاب دریا کے کناروں سے باہر نہیں آ سکے کیوں؟ کیونکہ فرانس کی حکومت نے 10 19 ء کے سیلاب کے بعد دریا کا راستہ لمبا کر دیا انہوں نے دریائے سین کو گھمایا اور ہر چھوٹے بڑے شہر کے قریب سے گزار کر سمندر تک پہنچادیا جنوری 1910ءکے سیلاب سے پہلے دریا سوڈیڑھ سو کلو میٹر لمبا تھا لیکن سیلاب کے بعد فرانس کے لوگوں نے اسے ہزاروں میل تک پھیلا دیا چنانچہ فرانس میں اب جب بھی سیلاب آتا ہے پانی آگے کی طرف دوڑ تا ہے اور اس کی طغیانی اور شورش زدگی چند سو کلو میٹر کے بعد دم توڑ دیتی ہے اور یوں یہ جان اور مال کا نقصان نہیں کر پاتا ۔فرانس کی حکومت نے دریا کو پھیلانے کے بعد اس سے دو بڑے دلچسپ کام لئے ایک اس نے شہروں کے اندر جھیلیں بناکر سیلاب کے پانی کو متبادل راستہ دیا یہ جھیلیں شہر کو سیلاب سے بچانے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کیلئے تفریح کا مرکز بھی بن گئیں، دو اس نے ملک میں ہیوی ٹرانسپورٹ، تعمیرات اور دوسرے بھاری بھر کم سامان کی سڑک کے ذریعے ترسیل پر پابندی لگا دی اور یہ ٹرانسپورٹ دریا کی طرف شفٹ کر دی اس کے بعد اس نوعیت کا سارا سامان بحری جہازوں کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر بھیجا جاتا ہے۔ اس بند و بست سے سڑکوں کی عمر بھی لمبی ہو گئی ، شہر بھی آلودگی سے بچ گئے اور دریا بھی استعمال ہونے لگا۔ آپ امریکا کی مثال بھی لے لیے امریکا میں نائن الیون ہوا 11 ستمبر 2001ء کو 19 دہشت گردوں نے نیویارک کے ٹوئن ٹاورز سے دو طیارے ٹکرادیئے اور تیسرا طیارہ پینٹاگان کی عمارت کے اوپر گرادیا۔ یہ امریکا کی تاریخ کا بدترین واقعہ تھا اور اس واقعے نے پوری دنیا کی خارجہ پالیسی کو ہلاکر رکھ دیا لیکن آپ امریکی اور امریکی سسٹم کا کمال دیکھئے امریکا نے اس کے بعد دوسرا نائن الیون نہیں ہونے دیا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں آپ پاکستان کو دیکھیے۔ ہمارے ملک میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور یہ سیلاب سینکڑوں لوگ، لاکھوں ایکڑ زرعی زمین، لاکھوں جانور اور ہزاروں مکان ،پل اور سڑکیں بہا لے جاتا ہے یہ سیلاب ہر سال پاکستان کی معیشت کو اربوں روپے نقصان بھی پہنچاتا ہے۔ لیکن اگلے سال کے اس موسم میں یہ سیلاب دوبارہ آجاتا ہے اور پچھلے سال کی طرح ہزاروں مکان ،پل اور سڑکیں بہا لے جاتا ہے لاکھوں جانور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور سینکڑوں انسان صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں ۔آپ ہمارا کمال دیکھئے ہم سال کے 9 ماه خشک سالی سے مرتے ہیں اور تین ماہ سیلاب میں ڈوب کر مر جاتے ہیں،ہم تین ماہ پانی کی تلاش میں رہتے ہیں اور تین ماہ پانی سے بھاگتے ہیں ۔ یہ کیا ہے ؟ کیا یہ ثابت نہیں کر تا ہم من حیث القوم ایڈہاک ازم کا شکار ہیں ہم بارش کے موسم میں ٹپکتی چھتوں کے نیچے بیٹھ کر اپنی راتوں کو گیلا ہو تادیکھتے ہیں اور جب بارش رک جاتی ہے تو ہم اپنے تہیں فیصلہ کر لیتے ہیں اب بارش نہیں ہو گی اور اگر بارش ہوئی تو ہماری چھت نہیں ٹپکے گی لیکن اگلی بارش میں حالات پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہوتے ہیں ، ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بلی کے خوف سے آزاد ہو جاتی ہے۔ اب ہماری حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروآ کا 132 کے وی کے گریڈسٹیشن میں بھی پانی بھر گیا جس سے کروڑوں روپے مالیت کے بریکر جل گئے جس سے تحصیل بھر میں بجلی کی فراہمی منقطع ہو گئی، 147 دیہات مکمل طور پر زیر آب آگئے اور لوگ نہ صرف کھلے آسمان تلے بلکہ  بیوی بچوں کے ساتھ مین انڈس ہائی وے پر  بیٹھے ہیں۔ علاقہ غریب اور اوپر سے قدرتی آفت کا آجانا رب سے معافی کا موقع ہے ۔ میں دعا کا حامی ہوں لیکن دعا کے ساتھ دوا بھی ضروری ہے ، اگر ہم دوا کے بغیر دعا کریں گے تو ہمارے مسئلے کبھی حل نہیں ہوں گے۔ ہمیں من حیث القوم اپنے وسیب کے علاقے کو بچانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو کچھ کرنا ہوگا، حکومتی ادارے اپنی کوشش کررہےہیں لیکن ہمیں خود بھی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھنا ہوگااور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی بہت کچھ کر رہے ہیں لیکن ہمیں ان سیلابوں کے نقصان سے بچنے کے لیے مستقل حل تلاش کرنا ہو گا ۔کیوں کہ دنیا میں سیلاب آتے ہیں اور دنیا ان کا مستقل حل تلاش کرتی ہے تاکہ جو نقصان ہو چکا وہ دوبارہ کبھی نہ ہو۔