جذباتی
ذہانت(حصہ اول)
تحریر:
ایچ-ایم-زکریا
ذہانت ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی وضاحت
کرنا مشکل ہے ، اور اس کا مطلب مختلف لوگوں کے لئے بالکل ہی مختلف ہوسکتا ہے۔
ذہانت کی ایک تعریف کسی بھی شخص کی سیکھنے کی صلاحیت اور اس سیکھی ہوئی چیز کے
عملی اطلاق کر سکنے کہ اہلیت ہے۔عام ذہانت میں میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ متعدد
مخصوص صلاحیتوں پر مشتمل ہوتی ہیں جیسے زبانی اہلیت ، مسائل کو حل کرنے میں منطق
کا اطلاق کرنے کی صلاحیت۔دنیا کی دو تہائی آبادی کا آئی کیو سکور پچاسی سے ایک سو
پندرہ کے درمیان ہوتا ہے جبکہ ستر سے کم اور ایک سو تیس سے زائد افراد صرف اڑھائی
فیصد ہوتے ہیں۔انیس سو پچانوے میں دو پروفیسرز نے ذہانت کا ایک نیا تصور پیش کیا
جسے بعد ازاں جذباتی ذہانت کہا گیا،یہ عام ذہانت سے بالکل مختلف تصور تھا۔جذباتی
ذہانت کی جو تعریف کی جاسکتی ہے وہ ہےافراد کی اپنے اپنے جذبات اور دوسروں کے
جذبات کو پہچاننے اور سمجھنے کی صلاحیت، مختلف احساسات کے درمیان فرق کرنے کی
اہلیت اور ان کو مناسب طور پر لیبل کرنے کی صلاحیت، سوچ اور طرز عمل کی رہنمائی
کرنے کے لئے جذباتی معلومات کا استعمال ، اور ماحول کو اپنانے کے اہنے جذبات کو
ایڈجسٹ کرنے یا اپنے مقاصد (حصول) کو حاصل کرنے کی صلاحیت۔گویا روایتی ذہانت کا
تعلق خارج اور جذباتی ذہانت کا سراسر تعلق باطن سے ہے۔ ذہانت ایک ایسی اصطلاح ہے
جس کی وضاحت کرنا مشکل ہے ، اور اس کا مطلب مختلف لوگوں کے لئے بالکل ہی مختلف
ہوسکتا ہے۔ ذہانت کی ایک تعریف کسی بھی شخص کی سیکھنے کی صلاحیت اور اس سیکھی ہوئی
چیز کے عملی اطلاق کر سکنے کہ اہلیت ہے۔جذباتی طور پر ذہین انسان نہ صرف یہ جان
جاتا ہے کہ خود اس کو کیا اچھا لگتا ہے بلکہ یہ بھی جان جاتا ہے کہ دوسروں کو کیا
اچھا لگتا ہے،یہ جان لینے کے بعد وہ اس چیز کا خاص خیال رکھتا ہے کہ ان سرحدوں سے
دور رہے جہاں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہیں اور کسی کے جذبات مشتعل ہو سکتے ہیں،وہ
اپنے جذبات اور دوسروں کے جذبات میں ایک خاص قسم کی تطبیق پیدا کرنے کا اہل ہوجاتا
ہے۔اس کی ایک مثال لے لیتے ہیں۔ویرات کوہلی اور عمر اکمل کم و بیش ایک سی صلاحتوں کے
حامل کھلاڑی کے طور پر ابھرے،دونوں کے پاس ہر طرح کے سٹروکس موجود تھے،پریکٹیس بھی
شاید برابر کرتے ہوں،کوچ بھی دونوں کو بدیسی ملے گویا صلاحیت،اہلیت اور محنت تو
ایک سی تھی لیکن ایک ستارہ بن گیا اور ایک گرد راہ۔جذباتی ذہانت‘‘ وہ قابلیت ہے جس
کی بدولت انسان مشکل حالا ت کو بھی برداشت کرلیتاہے اور اپنے آپ کو قابو میں رکھ
کر بڑے نقصان سے بچ خود کو بچالیتاہے۔’’جذباتی ذہانت‘‘ کی تھیوری امریکی ماہر
نفسیات ڈینیل گول مین نے پیش کی۔اس سے پہلے IQ(یادداشت کی
ذہانت)کاتصور تھا اور اس شخص کو کامیاب تصور کیاجاتا جس کا حافظہ مضبوط ہوتا۔لیکن
ڈینیل گول مین نے EQ(جذباتی ذہانت) کا تصور پیش
کیا اور بتایا کہ یادداشت کی بنسبت اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنے والا آدمی زیادہ
ترقی کرجاتاہے۔اگر کسی انسان کی یادداشت شاندار ہو لیکن وہ جذباتی طورپرکمزور ہو
تو وہ کامیاب ہوکر بھی ناکام ہوجاتاہے۔اس کے برعکس وہ شخص جس کا
IQلیول تو اتنا زیادہ نہیں لیکن اس کا
EQلیول مضبوط ہے تو وہ زیادہ ترقی کرجاتاہے۔جذباتی ذہانت
میں بہترین انسان ہی ایک بہترین ٹیم لیڈر بنتاہے ۔اگر ایک انسان لیڈر بن کر بھی
جذباتی ذہانت کی کمی کا شکار ہے تو پھر اس کی ٹیم اس سے خوفزدہ رہے گی ، کیوں کہ
وہ ایک بنیادی انسانی عادت یعنی اچھے رویے سے محروم ہے اور اسی محرومی کی وجہ سے
اس کی ٹیم اس سے دور ہوجائے گی۔ نپولین ہل کہتاہے : ’’ غصہ اور محبت ایسے طاقتور جذباتی عوامل ہیں
جن کی بدولت انسان تعمیری کام بھی کرسکتاہے اور تخریبی بھی۔‘‘اگر ان دونوں جذبات
کو انسان کنٹرول کرلے تو ان سے شاندار کامیابیاں حاصل کرسکتاہے لیکن اگر انسان
انھیں کنٹرول نہ کرے تو پھر یہ انسان کو کنٹرول کرلیتے ہیں اور اس کوہرلحاظ سے
نقصان پہنچاتے ہیں۔غصہ دراصل ایک ہائی جیکر ہے ۔یہ انسان کے شعور کو ہائی جیک
کرلیتاہے اورپھر وہ چیزوں کو پرکھنے او راچھے برے کی تمیز سے محروم ہوجاتاہے۔یہی
وجہ ہے کہ غصے کی حالت میں فیصلہ کرنے سے منع کیا گیا ہے کیوں کہ اس وقت عقل کام
نہیں کررہی ہوتی اور یہ چیز انسان کے لیے انتہائی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔انسان
کاکوئی بھی جذبہ (غصہ ، نفرت اور محبت) دراصل اس کے خیال سے جنم لیتاہے ۔آپ کے
ذہن میں جو بھی اچھا یابرا خیال کسی کے بارے میں آئے گا اسی کے مطابق آپ کے
جذبات بھی بنیں گے۔مثال کے طورپرآپ اپنے دوست کے پاس بیٹھے ہیں ،اتنے میں ایک
انجانا شخص آتاہے اور آپ کے دوست کو بُرا بھلاکہنا شروع کردیتاہے تواس کی وجہ سے
آپ کے ذہن میں اس انجانے شخص کے بارے میں منفی خیالات بنیں گے اور ان منفی خیالات
کی بنیاد پر آپ کو بھی اس پر غصہ آئے گا لیکن اگر آپ اس شخص کے جذبات کو چھوڑکر
اس کے خیال کو پرکھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ شخص کیوں میرے دوست پر غصہ
ہورہاہے تو اس مسئلے کو آسانی کے ساتھ حل کیاجاسکتاہے۔خیال کوکنٹرول کرنے والا
انسان ہی جذباتی طورپر مضبوط انسان ہوتاہے۔ڈینیل گولمین کہتاہے:’’اگر آپ کے جذبات
آپ کے قابو میں نہیں، اگر آپ خودسے آگاہ نہیں، اگر آپ اپنے پریشان کن جذبات پر
قابونہیں رکھ سکتے اور ان کے اظہار کا مثبت طریقہ نہیں تلاش کر سکتے، اگر آپ کے
اندر دوسروں سے حسن سلوک کی صلاحیت نہیں، آپ دوسرے لوگوں سے مناسب تعلقات استوار
نہیں کر سکتے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے ذہین ہیں کیو ں کہ آپ کی کامیابی کا سفر زیادہ دور تک نہیں
جا سکے گا۔(جاری ہے)‘‘

0 Comments