چوگلہ کی چوکی
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
31 جنوری 1939 مسلمانوں کا عید الاضحی کا دن تھا، مسلمان اس
دن جانوروں کی قربانی کرتے ہیں ۔ قیام پاکستان سے قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں لوگ
عام طورپر اجتماعی قربانی کیا کرتے تھے ، اس عید کے دن ہندوں نے قربانی کےلیے
خانقاہ زکوڑی شریف جانے والے لوگوں کے ساتھ چھیڑ خانی کی کوشش کی اور کافی تعداد
میں ہندو وہاں پہنچ بھی گئے ، ہندوں کی
عیارانہ فطرت اور ذہنیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ عید کے دن صبح دو
ہندو اودھے بھان اور تلسی داس نے سٹی پولیس سٹیشن میں جا کر رپورٹ لکھوائی کہ کچھ
مسلمان بھوجا رام کے کنویں والی زمین پر گائے ذبح کرنے جارہے ہیں ۔پولیس نے فوری
طور پر کاروائی کی اوراس جگہ پر پہنچ گئی وہاں وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ
مسلمان کسی ہندو کی زمین پر نہیں بلکہ زکوڑی شریف کی حدود میں دو گائے ذبح کر چکے
ہیں اور اب حصے بنائے جار ہے ہیں ۔ڈی ایس پی نے بذات خود موقع پر پہنچ کر حالات کو
خراب ہونے سے بچا لیا،50 سے 60 مسلمان اور 100 سے 110 ہندو جو وہاں جمع ہو چکے تھے
ان کو پرامن طریقوں سے گھروں کو بھجوایا، لیکن شہر میں اس خبر کے پھیل جانے سے کہ
ہندوں نے خانقاہ جاکرقربانی روکنے کی کوشش کی ، کافی کشیدگی پیدا ہوگئی۔ اس کے بعدمسلمانوں
میں اشتعال پھیل گیا کیوں کہ ان کے خیال کے مطابق مسلمانوںکو ان کی اپنی حدود میں
قربانی سے روکنے کی کوشش کی گئی ، یاد رہے کہ اس زمانے میں یہاں کانگریس کی حکومت تھی اور انہوں نے کھلے عام
گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔بہرحال اس دن تو پولیس نے وہاں سے لوگوں
کو ہٹا دیا دوسرے دن مسلمانوں کا ایک اجلاس عید گاہ کلاں میں منعقد ہوا جس میں
زکوڑی صاحب نے ایک جذباتی تقریر کی اس اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی کہ ڈیرہ
میونسپل حدود میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہٹائی جائے، اجلاس اختتام پذیر ہو گیا ،
لوگ گھروں کو جانے لگے تو اجلاس کے شرکاء واپسی پر ایک جلوس کی شکل بن گئے حالانکہ
کوئی جلوس نہیں تھا یہ گھروں کو واپسی تھی لیکن تعداد اتنی تھی کہ وہ جلوس نظر آنے
لگ گیااور وہ چوگلہ کی طرف جانے لگے، جب یہ لوگ مسلم بازار سے گزر رہے تھے تو ہندو
مسلم تمام لوگوں کی دکانیں بھی کھلی ہوئی تھیں اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں
آیا، لیکن یہ جلوس جب چوگلہ پر پہنچا تو قریبا 60 کے قریب ہندو ڈنڈے اٹھاے بھاٹیہ
بازار( کمشنری بازار) کی طرف چوگلہ سے تقریبا 20 سے 25 گز دور کھڑے ہوگئے ، پولیس
بھی آگئی، مسلمانوں کو بھاٹیہ بازار میں داخل ہونے سے روک دیاگیاتاکہ تصادم نہ
ہوجائے، لیکن عین اس وقت ایک ہندو بالا خانے سے فائر ہوا، جس سے ایک غلام رسول
نامی ایک لڑکا زخمی ہوگیاجو بعد میں چل بسا۔پہلا فائر ہونے کے بعد بازار کلاں میں
ہندو بالا خانوں سے فائرنگ شروع ہوگئی اور اس کے بعد نیچے موجود لوگوں نے دکانوں
کو آگ لگانا شروع کردی چونکہ شہر میں کوئی فائر بریگیڈ نہیں تھا جس سے بہت نقصان
ہوا کل 114 دکانیں جل گئیں۔ ان فسادات میں 9 ہندو مارے گئے جبکہ 32 ہندو ز خمی اور 37 زخمی مسلمان تھے ۔ان میں 9 پولیس
والے اور ایک ہیڈ کانسٹیبل بھی زخمیوں میں شامل تھا۔پولیس اور ایف سی کی مزید نفری طلب کرکے حالات پر قابو پایا
گیا ۔ تاہم 1939 کے بعد ککانگریس حکومت کے
مستعفیٰ ہو جانے کے بعد ہندوں کا جارحانہ رویہ بہت کم ہوگیاتھااور بعد کے سالوں
میں عید الاضحیٰ کے موقع پر کبھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن ان فسادات کے المناک حادثے کے بعد اگلے
سال 1940 میں چوگلہ پر ایک پختہ چوکی تعمیر کی گئی، جس میں آہنی دروازے بھی لگائے
گئے تاکہ بوقت ضرورت انہیں بند کرکے حالات پر قابو پایا جا سکے۔ یہ چوکی اس لیے
چاروں بازاروں کے سنگم پر بنائی گئی تاکہ چاروں طرف نظر رکھی جا سکے اور حالات کو
کنٹرول کیا جا سکے اور اپریل 1947 میں پھر فسادات ہونے لگےتو یہ چوکی راستے بند
کرنے میں کافی کارآمد رہی اور ساتھ کے بالاخانوں پر اس مورچے سے نظر رکھی جانے
لگی۔اب یہ چوکی ٹی ایم اے کی ملکیت ہے اور پولیس کی سپیشل برانچ کا آفس ہے جو اپنے
فرائض منصبی سر انجام دے رہے ہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان کی یہ عمارت بھی پرانی اور
تاریخی عمارتوں میں شامل ہوتی ہے پہلے تو
اس کی حالت خستہ تھی لیکن اب امین برادران نے اس بلڈنگ کی بحالی پر توجہ دی تو اب
یہ عمارت نہ صرف بہترحالت میں آگئی بلکہ اس کی خوب صورتی میں بھی اضافہ ہو گیا۔
اور یہ اب ڈیرہ اسماعیل خان کی خوب صورت عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔

0 Comments