سر کٹا انگریز

تحریر: ایچ-ایم-زکریا



برٹش انڈیا کے دور میں کسی  صوبے کو آرمی کے لیفٹیننٹ گورنرکے  کنٹرول میں دے دیا جاتا تھا، پنجاب میں 15 لیفٹیننٹ گورنر گزرے ہیں جن میں چوتھا لیفٹیننٹ گورنر سر ہنری ڈیورنڈ تھا ، سر ہنری ڈیورنڈ جو 6 نومبر 1812 میں انگلستان کے شہر ریڈیکاس میں پیدا ہوئے آپ کے والد رائل آرمی میں رسالہ آفیسر تھے.والد کا انتقال آپ کے بچپن میں ہی ہو گیا۔ابتدائی تعلیم ایسٹ انڈیا کمپنی کی بدولت آپ نے ریڈیکا ملٹری کالج میں حاصل کی۔ 16 سال کی عمر میں ڈیورنڈ نے بنگال انجینئرز میں بطور لیفٹینٹ کمیشن حاصل کیا.اور 1829 میں الیگزینڈر ڈف کے ہمراہ ہندوستان کا سفر کیا. جہاں ہندوستان کی انگریز حکومت نے انہیں پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ سے منسلک کر دیا۔1835 کی جنگ میں ڈیورنڈ نے کابل و غزنی کی تسخیر میں اہم کردار ادا کیا،چیف انجنیئر کئین تھامسن نے جب جنگی حکمت عملی تیار کی تو اس حساس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے نوجوان ڈیورنڈ کا انتخاب کرنا پڑا۔سر ہنری ڈیورنڈ کو اس حساس منصوبہ کی حکمت عملی کے تحت راستوں میں بارود سے بھرے تھیلے اور بارودی سرنگیں بچھا کے دھماکے کرنے تھے.ڈیورنڈ جب بارودی سرنگیں بچھانے والے دستہ کے ہمراہ گیٹ سے 150 گز کے فاصلے پر پہنچا تو گھاٹ میں بیٹھے دشمنوں کی زد میں آ گیا. نوجوان ڈیورنڈ نے پھرتی اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جماعت سمیت خود کو اچانک حملوں سے بچا کے بغیر کسی جانی نقصان کیے کابل گیٹ تک رسائی حاصل کر لی. سر ہنری ڈیورنڈ نے بارود کی متعین مقدار گیٹ کے سامنے رکھ کر بارودی دھماکوں کے ذریعے کابل گیٹ کو اڑا دیا. 23 جولائی 1839 کو انگریز فورسز نے غزنی فتح کر لیا۔1840 کاپورا سال ڈیورنڈ نے پہاڑی میسور پر گزارا اسی مہم کے نقشہ جات, منصوبہ بندی اور رپورٹیں تیار کرتا رہا ، اگست 1943 میں ڈیورنڈ نے میجر جرنل سر جان میکائیل کی بیٹی مریم سے شادی کر لی، اسی زمانہ میں انہیں کیپٹین کے عہدے پر ترقی مل گئی۔1848 میں سکھوں سے جنگ چھڑ جانے کے کچھ عرصہ بعد سر ہنری ڈیورنڈ کو مظفر گڑھ کے مقام پر کمانڈر انچیف لارڈ گوہ سے ملنےکا حکم ملا, ملاقات کے بعد ڈیورنڈ مایوسی کا شکار ہو گیا کیونکہ انہیں کوئی عہدہ بھی ٹینا سیرئم کمشنر شپ کے برابر نہیں لگتا تھا۔سر ہنری ڈیورنڈ کو 1867 میں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دےدی گئی۔آخرکار 1870 میں سر ہنری ڈیورنڈ کو پنجاب کا لیفٹینٹ گورنر تعینات کیا گیا جو اس کی زندگی کے آخری وقت تک رہا۔سر ہنری ڈیورنڈ نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک چوکی کا پیدل دورہ کرنے کے بعدنواب صاحب کے تاریخی گارڈن دیکھنے کے لیے ہاتھی سواری کی خواہش ظاہر کی . سر ڈیورنڈ نے شائستگی سے نواب صاحب کو ہاتھی پر چڑھنے کی آواز دی. نواب  آف ٹانک ہاتھی پر سر ہنری ڈیورنڈ کے ساتھ بیٹھ گیا۔اور دوسرے ہاتھی پر پانچ اہلکار ایک پیڈ پر بیٹھے گئے یعنی بریگیڈیئر جنرل کینر, کرنل گراہم, کرنل مکلاگن, کرنل کینیڈی, اور کرنل بلیک وغیرہ۔سر ہنری ڈیورنڈ کا ہاتھی قلعہ کے گیٹ سے باہر آنے لگا تو ہاتھی بدک گیا، ہاتھی کے بدکنے کی وجہ سے ڈیورنڈ کا سر گیٹ کے محراب سے اس زور سے ٹکرایا جس سے سر ہنری اور نواب صاحب زمین پر گر گئے۔جب اہلکا رسر ہنری کو اٹھانے آئے تو اس کے منہ اور ناک سے بہت خون آ رہا تھا اور ریڑھ کی ہڈی میں اس شدید سے چوٹ لگی کہ باقی جسم سارے اعضاء مفلوج ہو گئے تھے. اور نواب شاہنواز خان صاحب کی بھی تین پسلیاں ٹوٹ گئی۔یکم جنوری 1871 کو اتوار کا دن تھا ڈیورنڈ بہت کمزور نظر آیا لیکن اس کا پورا ہوش ابھی تک برقرار تھا۔دوپہر کے وقت ڈاکٹروں نے سمجھ لیا کہ سر ہنری کی زندگی زیادہ دن نہیں چل سکتی. تو انکے بیٹے اور دو بیٹیوں کو بلوا بھیجا گیا۔سر ہنری ڈیورنڈ نے اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو آخری نصیحت کرتے ہوئے کہا میں مر رہا ہوں اوپر مسیح کی طرف دیکھو جس نے صرف روح کے ذریعہ جنم لیا اور خدا کی محبت اور خوف …. یہ الفاظ منہ میں تھے اسکے بعد سر ہنری خالق حقیقی سے جا ملا۔سر ہنری کی لاش اونٹوں کی ایک گاڑی پر ڈیرہ اسماعیل خان لائی گئی. اور 5 جنوری 1871 کو چھاؤنی کے سینٹ تھامس چرچ کے لان میں دفن کر دیا گیا۔پولو گراونڈ سے 95 منٹ بندوقوں سے فائر کر کے ڈیورنڈ کو سلامی پیش کی گئی،سنگ مرمر کا ایک سیدھا سا ٹکڑا اس آخری آرام گاہ پر محیط ہے اور اس پر وہ الفاظ تراشے گئے جو اس کی زندگی میں اپنے حکمران بنانے پر دُہراے تھے،

اے انسان, اس نے تجھے بنایا ہے کہ بھلائی کیا ہے, اور خداوند آپ سے کیا مانگتا ہے,
لیکن انصاف کے ساتھ اور رحمت سے محبت کرنے اور اپنے خدا کے ساتھ عاجزی کے ساتھ چلنے کے لئے ہیں۔.”

آج بھی ٹانک کے مین بازار میں ڈیورنڈ گیٹ کے نام سے ایک مقام منسوب ہے ۔ جہاں ان کا انتقال ہوا تھا ۔ تاریخ کے طالب علم ہونے کے ناطے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کے لیے آج میں اپنے دوست رمیض حبیب کے ساتھ  اس قدیمی چرچ اور سر ہنری ڈیورنڈ کی قبر تک پہنچ گیا۔  رمیض حبیب صاحب  ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخی مقامات کے حافظ ہیں اوراس پر  ایک بہترین اور مستند کتاب بھی ترتیب دے رہے ہیں ،تاریخ کا نوحہ اور بین بھی عجیب ہے کہ یہ زمین کیسے کیسے شاہ سواروں کو اپنے اندر نگل گئی۔

نوٹ: ڈیورنڈ کی اس قبر کے متعلق ایک غلط فہمی موجود ہے کہ یہ قبر افغان سرحد کی نشاندہی اور ڈیورنڈ لائن کی حد بندی کرانے والے سر مارٹیمر ڈیورنڈ کی قبر ہے، حالانکہ یہ قبر 1871 سے اس چرچ کے احاطے میں موجود ہے جبکہ ڈیورنڈ لائن کی نشاندہی اور افغانستان کے ساتھ معائدہ 1894 میں ہواتھا۔قبر میں موجود ڈیورنڈ کا نام سر ہنری ڈیورنڈ ہے جبکہ سرحد کا تعین کرنے والے کا نام سر مارٹیمر ڈیورنڈ ہے۔