کہانی ایک چپڑاسی کی

 

ایک اسسٹنٹ کمشنر کی ایک شہر میں تعیناتی ہوئی انہیں ڈپٹی کمشنر کا پہلے ہی دن فون آ گیا کہ تمہارے دفتر میں ایک چپڑاسی ہے اسے ٹرانسفر کرکے میرے پاس بھیج دو اے سی صاحب نے

 کہاکہ کل دفتر جا کر پہلا کام یہی کر دوں گا۔

اگلی صبح وہ دفتر جانے کے لیے نکلنے لگے تو انہیں ایک اور اسسٹنٹ کمشنر کا فون آگیا جو پہلے کچھ عرصہ تک یہاں کام کر تے رہے تھے انھوں نے کہا کہ آپ کے ہاں دفتر میں ایک فلاں چپڑاسی ہے اسے فارغ کر کے میرے پاس بھیج دیں۔ جب یہ اے سی صاحب دفتر پہنچے تو ایک تیسرا فون بھی آگیا کہ آپ کے ہاں فلا ں ملازم ہے اسے برائے مہربانی میرے پاس بھیج دیں اب ان اے سی صاحب کی حیران ہونے کی باری تھی کہ ایسا کون ساملازم ہے جسے تین افسران اپنے ہاں ٹرانسفر کرانا چاہتے ہیں جبکہ یہ بندہ کسی اہم پوسٹ پر بھی فائز نہیں محض دفتر میں ایک چپڑاسی ہے لیکن ہر کوئی اس کی اپنے ہاں ٹرانسفر چاہتا ہے۔ دفتر جا کر اے سی صاحب نے اپنے پی اے کو بلایا اور کہا کہ ہمارے دفتر میں فلاں ملازم کام کرتا ہے
اسے فلاں ڈپٹی کمشنر کے ہاں ٹرانسفر کردیں۔ پی اے رک گیا اور بولا۔ سر جسے سب اپنے پاس لے جانا چاہتے ہیں آپ اسے اپنے ہی ہاتھوں سے ٹرانسفر کرنا چاہتے ہیں؟ اے سی صاحب بولے ہم نے کیا کرنا ہے ہم کوئی اور بندہ رکھ لیں گے دفتر کا چپڑاسی ہی تو ہے جس کا کام چائے پانی پلانا ہے وہ ہمارے لیے کتنا اہم ہو سکتا ہے جائیں اور ٹرانسفر آرڈر نکالیں پی اے جھک کر بولا سر اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات بولوں؟ اے سی صاحب بولے جی ہاں بتائیں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ پی اے بولا سر ٹھیک ہے اس چپڑاسی کی ٹرانسفر کردیں آپ کی مرضی لیکن ایک بات میری مان لیں اسے بدلنا ہی ہے تو تین دن بعد بدل لیں، اے سی صاحب کو غصہ آگیا افسر میں ہوں اور پی اے ایسے ایکٹ کر رہا ہے جیسے اے سی وہ ہو انہوں نے پوچھا تین دن میں ایسا کیا ہوجائے گا پی اے بولا سر تین دن بعد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔پھر ویسے ہی ہو ا جیسا پی اے نے کہا تھا تین دن بعد اے سی صاحب نے پی اے کو بلایا اور کہا کہ ٹرانسفر کرنے کی ضرورت نہیں وہ اب ہمارے پاس ہی کام کرے گا پھر پی اے سے پوچھا تمہیں کیسے پتہ تھا کہ میں تین دن بعد اس کی ٹرانسفر روک دوں گا پی اے ہنس کر بولا جناب جو افسران آپ سے یہ بندہ مانگ رہے ہیں یہ سب آپ کی اس کر سی پر بیٹھ کر گئے ہیں وہ بھی آپ کی طرح پہلے دن یہ حکم دیا کرتے تھے لیکن میرا مشورہ سننے کے بعد وہ اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہوجاتے جیسے اب آپ نے اپنا فیصلہ بدل دیا،

 پاکستان کی ہسٹری میں یہ ایک زبردست سٹوری ہے، 

اس چپڑاسی کے پاس آخر کون سی ایسی بڑی سفارش تھی کہ وہاں جو بھی افسر بیٹھتا تھاتین دن بعد اس کا تبادلہ نہیں کرا سکتا تھااس کی ایسی کیا خدمات تھیں جو سب اس کے دیوانے ہوجاتے

دراصل وہ شخص ہی ایسا تھا جو اپنی سفارش خود تھا اسے کسی سفارش کی ضرورت نہیں تھی وجہ یہ تھی کہ وہ صاحب کے دفتر پہنچنے سے پہلے ہی دفتر آراستہ کر دیتا تھاصاحب جب آفس میں داخل ہوتا تو آفس خوشبو سے مہک رہا ہوتا تھا صاحب کو میز صاف ستھری ملتی تھی اخبار جیسے استری کرکے رکھا ہوصاحب کے لیے چائے کا کپ ہمیشہ گرم، پانی کا گلاس صاف ستھرا اورا جلا ہوا ٹیبل کی سائیڈ پر۔ فائلیں صاف ستھری اور ترتیب سے اور کمرے کی غیر معمولی صفائی۔غرض اسے کبھی کچھ بتانا ہی نہیں پڑتا تھااسے پتہ ہوتا تھا کہ صاحب کو کیا پسند اور کیا ناپسند، کوئی فضول آدمی دفتر آ بھی جاتا تو وہ دو منٹ بعد کمرے میں داخل ہوتا اور کمرے سے اس آدمی کو جانے پر مجبور کر دیتااس ظالم کو یہ بھی اندازہ تھا کو صاحب کو کمرے کا کتنا ٹمپریچر پسند ہے ہر کام اس ترتیب اور نفاست سے ہوتا کہ ہر افسر کا دفتر میں کام کرنے کو دل کرتا وہ صرف اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ سرکٹ ہاوس جا کر ڈیوٹی دیتا کپڑے اس انداز سے استری کرتا کہ شاید ہی کسی نے کیے ہوں اور تو اور شرٹس بھی ائیر کینڈیشن کے سامنے رکھ دیتا کہ صاحب پہن کر باہر نکلے تو فورا گرمی کا احساس نہ ہو جوتے ایسے پالش کرتا کہ صاحب کو اپنا چہرہ بھی اس میں دکھائی دیتااس کی موجودگی میں یہ لگتا کہ آپ شہزادے ہیں اور سیون سٹار ہوٹل میں ٹہرے ہیں ا ور آپ کی بادشاہوں والی خدمت کی جارہی ہے

اے سی صاحب نے ایک دن اس ملازم سے پوچھا یہ سب آپ نے کیسے سیکھاوہ بولاجناب میں ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتا ہوں  ایک دن میں نے خود سے سوال کیا کہ کیا میں ایک چپڑاسی سے ترقی کرکے ڈپٹی کمشنر لگ سکتا ہوں جواب ملا نہیں تو سوچا ساری عمر چپڑاسی ہی رہنا ہے تو کیوں نہ ایک خاص چپڑاسی بنوں ہر صاحب میری ہی خدمات لینے کی خواہش کرے اور میں نے یہ خواہش پا لی کہ اگر پاکستان میں کبھی یہ مقابلہ ہو کہ اس ملک کے سرکاری دفاترمیں بہترین نائب قاصد کا انعام کسے ملنا چاہیے تو وہ مجھے ملنا چاہیے پھر میں نے دل لگا کر کام کیا اورکبھی کسی کام کو چھوٹا نہ سمجھا اور ہر کام کو دنیا کا سب سے بڑا اور اہم کام سمجھ کر کیا اوردوم میں ہمیشہ اپنے کام کو انجوائے کرتا ہوں اور مجھے اپنے کام سے سکون ملتا ہے اور یہ سکون دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے

یاد رکھیں کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا یہ ہم انسان اسے چھوٹا یا بڑا بناتے ہیں۔ آپ جو بھی کام کرتے ہیں اسے دل لگا کے کیجئے یہ آپ کی کامیابی بھی ہے اور سکون بھی۔