ٹچ سکرین کا موجد
تحریر: ایچ -ایم-زکریا
سٹیو
عبد الفاتح جان جند الی کا بیٹا تھا عبد الفاتح کا تعلق شام سے تھا، یہ تعلیم حاصل
کرنے کیلئے امریکا آیا اور یہاں رہ گیا جونی کے ساتھ اسے محبت ہوئی اور پھر جونی
کے پیٹ سے اس کا بچہ ہوا، عبد الفاتح جان جندالی یہ بچہ نہیں چاہتا تھا لیکن جونی
بچے کو جنم دینا چاہتی تھی دونوں کے درمیان جھگڑا ہو اور سٹیو کاوالد اس کی پیدائش
سے پہلےہی اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا،
ماں مالیاتی بحرانوں کا شکار تھی، اسے محسوس ہو اکہ وہ اس بچے کی پرورش نہیں کر سکے گی اس نے اسقاط حمل
کا فیصلہ کیا لیکن اسقاط کا وقت گزر چکا تھا، چنانچہ اس نے یہ بچہ کسی بے اولاد
جوڑے کو دینے کا فیصلہ کیا ۔ماں نے اخبار میں اشتہار دے دیا۔ تین چار جوڑوں نے
رابطہ کیا ماں نے ایک وکیل جوڑے کو منتخب کر لیا ،یوں سٹیو پیدائش سے پہلے ہی لے پالک ہو گیا۔ یہ پیدا
ہوا تو اس جوڑے نے اسے گود لینے سے انکار کر دیا ان کا کہنا تھا ہم بیٹے کی بجائے بیٹی
کے خواہش مند تھے ماں نے فہرست میں موجود دوسرے جوڑےکو بلا لیا۔ یہ دونوں میاں
بیوی غریب تھے ماں انہیں اپنا بچہ نہیں دینا چاہتی تھی لیکن اس کے پاس سٹیو کیلئے
دودھ تک کے پیسے نہیں تھے، چنانچہ اس نے دو دن کے سٹیو کو یہ کہہ کر ان کے حوالے
کر دیا کہ آپ اسے اعلی تعلیم دلائیں گے جوڑے نے ماں سے وعدہ کر لیا ۔یہ پال جابز اور کلاره جابز تھے اور یہی آگے چل کر
دنیا کے اس حیران کن شخص(سٹیو جابز) کے والدین کہلائے۔ سٹیو جابز پڑھنے میں اچھا
نہیں تھا یہ بیک بینچر تھا اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا لیکن اس کے والدین
اسے پڑھاتے چلے گئے یہاں تک کہ یہ کالج پہنچ گیا ،کالج میں اس نے کیلی گرافی میں
داخلہ لے لیا۔ یہ ایک فضول مضمون تھا اور اس کا کوئی مستقبل نہیں تھا لیکن سٹیو
جابز یہ مضمون پڑھتا چلا گیا اسے خود معلوم نہیں تھا یہ اس مضمون کو کیوں پڑھ رہا
ہے اس دوران یہ کھانے پینے کیلئے کوکا کولا کی خالی بوتلیں جمع کر تا کباڑیے کی
دکان پر فروخت کرتا اور اس کمائی سے کھانا کھاتا ،یہ ہفتے کے ایک دن ہندوں کے مندر
سے بھی مفت کھانا کھاتا تھا، سٹیو جابز نے برسوں بعد سٹینفورڈ یونیورسٹی میں طالب
علموں سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا میں اگر کیلیگرافی نہ پڑ ھتا تو میں شاید کبھی
میک کمپیوٹر ایجاد نہ کرتا مجھے کیلی گرافی نے ایڈیٹنگ کے اس سسٹم کی ترغیب دی تھی
۔یہ کالج سے نالائقی اور عدم توجہ کی وجہ
سے نکال دیا گیا سٹیو جابز اس کے بعد نوکری کیلئے مارا مارا پھرتا ہے اس دوران اس
نے ویڈیو گیمز بھی بنائیں اور کمپیوٹر فرمز میں انتہائی نچلے درجے کے کام بھی کئے اس
نے ایپل کمپنی کی بنیاد رکھی،جس نے پوری دنیا کا کلچر تبد یل کر دیا ۔دنیا کو آسان
قسم کا موبائل چاہیے تھا ایک ایسا آسان موبائل جس میں تمام چیزیں ہوں لیکن اسے
چلانا آسان ہو، سٹیو جابز نے دنیا کو آئی فون کی شکل میں یہ فون بھی دے دیا۔ یہ
دنیا کا پہلا ٹچ سکرین موبائل تھا جو موبائل بھی تھا ،آئی پیڈ بھی تھا اور کمپیوٹر
بھی تھا۔ یہ آئی فون بعد ازاں بہتر سے بہتر ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ آئی پیڈ فور نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ۔دنیا
میں کچھ لوگ کمپیوٹرکو آسانی سے سمجھ نہیں
پا رہے تھےاور ان کا دماغ جدید ٹیکنا لو جی کو قبول نہیں کر تا تھا سٹیو جابز ان جیسے
لوگوں کی محرومی سمجھ گیا لہذا اس نے دنیاکو آئی پیڈ دےدیا۔یہ سب کچھ سٹیو جابز کی
مہربانی ہے۔ سٹیو جابزونیاکا باکمال ترین شخص تھا ،آج دنیا بٹنوں سے ٹچ سکرین پر
شفٹ ہورہی ہے اور چند برس بعد دنیا کی 90 فیصد مشینیں ٹچ سسٹم پر شفٹ ہو جائیں گی۔
آپ کی گاڑی انگلی کے ٹچ سے چلے گی تمام دروازے کھڑ کیاں ٹچ سے کھلیں گی۔ آپ ٹچ سے
ٹیلی ویژن آن اور آف کریں گے آپ کو اے ٹی ایم مشین میں کارڈ نہیں ڈالناپڑے گا آپ
مشین پر جائیں گے ، سکرین پر انگلی رکھیں گے اور آپ کا اکاؤنٹ آپ کے سامنے آجائے
گا آپ کی انگلی آپ کا کریڈٹ کارڈ ہو گی اور آپ کو لکھنے پڑھنے کیلئے بھی کاغذ قلم
کی ضرورت نہیں رہے گی آپ انگلیوں کے پوروں
سے لکھیں گے اور یہ کتابی شکل میں چھے گی یہ سب سٹیو جابز کے کمالات ہیں۔ اگر سٹیو
جابز نہ ہوتا تو شاید دنیا کو اس ٹیکنالوجی تک پہنچنے میں مزید کئی دہائیاں لگ
جائیں۔ یہ سٹیو جابز کے کمالات ہیں لیکن اس کے اصل کمال کچھ اور ہیں ، سٹیو جابز
2004ء میں لبلبے کے کینسر کا شکار ہو گیا یہ خطر ناک ترین کینسر ہے اور اس کے مریض
عموما چھ ماہ میں مر جاتے ہیں لیکن سٹیو جابز نے مرنے سے انکار کر دیا۔ یہ ان دنوں
آئی پیڈ بنا رہا تھا چنانچہ اس نے ڈاکٹروں سے کہا میں نے ابھی بہت کام کر نے ہیں ،
میں مرنے کیلئے تیار نہیں ہوں‘‘ ڈاکٹروں نے جواب دیا" لبلبے کے کینسر کے
مریضوں کے پاس چھ ماہ سے زیادہ وقت نہیں ہو تا، سٹیو جابز نے ڈاکٹروں کا ہر حکم
ماننے سے انکار کردیا اور یہ سات سال زندہ رہا
یہ اس وقت تک سانس لیتا رہا جب تک آئی فون فائیو تیار نہ ہو گیا سٹیو جابز
ایپل کمپنی سے صرف ایک ڈالر سالانہ تنخوا ہ لیتا تھا لیکن اس کے باوجود یہ امریکا
کا 42 واں امیر ترین شخص تھا ۔اور اس کا سب سے بڑا کمال تبدیلی تھا دنیا میں اربوں
کھربوں لوگ گزرے ہیں لیکن قدرت نے انسان کے لائف سٹائل کو تبد یل کر نے کا اعزاز
صرف چند لوگوں کو بخشا اور سٹیو جابز دنیا کے ان چند خوش نصیبوں میں شمار ہوتا تھا
دنیا میں پہیہ بنانے والا انسان تبدیلی کا
سفیر تھا ،جس نے پہلی بار کپڑا بنا تھا وہ بھی با کمال تھا ، جس نے بلب بنایا ،جس
نے ہوائی جہاز ایجاد کیا ،جس نے ٹیلی فون بنایا ،جس نے کمپیوٹر ایجاد کیا اور آخر
میں جس نے ٹچ سکرین کا نظریہ دیا یہ بھی با کمال تھا اور یہ بھی تبدیلی کا سفیر
تھا، سٹیو جابز مجھ جیسے بے شمار نالائق
لوگوں کا محسن تھا کیونکہ یہ نہ ہوتا تو ہم آج بھی کمپیوٹر کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ ر ہے ہوتے۔ سٹیو جابز 5
اکتوبر 2011ء کو کینسر کی وجہ سے ہمارا ساتھ چھوڑ گیا لیکن اس کا ٹچ سکرین انقلاب
ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا کیونکہ آج کا انسان جس طرح بلب کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا
بالکل اسی طرح ٹچ سکرین انقلاب کل کے انسان کی سماجی زندگی کا 50 فیصد ہو گا اور
یہ 50 فیصد سٹیو جابز کا حصہ ہے دنیامیں 99 اعشاریہ 99 فیصد لوگ مرنے کے بعد مٹی
میں مل کر ختم ہو جاتے ہیں اور چند سال بعد ان کا نام تک وقت کے صفوں سے مٹ جاتا
ہے۔ صرف اعشاریہ ایک فیصد لوگ مرنے کے بعد زند رہتے ہیں ، سٹیو جابزان اعشاریہ ایک
فیصد لوگوں میں سے ایک تھا اور دنیا میں جب تک یہ ٹچ سکرین زندہ رہے گی اس وقت تک
یہ سٹیو جابز بھی زنده رہے گا ۔
0 Comments