ہمارے
مزاج اور ہم
تحریر:
ایچ-ایم-زکریا
دنیامیں
13 مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ہم لوگ ان میں سے کسی ایک مزاج میں پیدا ہوتے ہیں ہمارا
مزاج ہماری وہ فطرت ہو تا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے نیچر کین ناٹ بی چینج‘
فطرت تبدیل نہیں ہو سکتی ، ہم میں سے کچھ لوگ کنجوس ہوتے ہیں، یہ کھرب پتی ہو کر
بھی کنجوس رہتے ہیں اور لوگ ان کے بارے میں کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اللہ تعالی
کا حاجی صاحب پر بہت کرم ہے مگر یہ اپنی گانٹھ نہیں کھولتے ۔ہم میں سے کچھ لوگ
فیاض ہوتے ہیں، یہ فقیر بھی ہوں تو بھی کسی کو انکار نہیں کرتے ۔ہم میں سے کچھ لوگ
بہادر ہو تے ہیں ، یہ اکیلے پوری فوج سے ٹکر جاتے ہیں، آپ روز انہیں کہیں تم پھڈے
سے باز رہاکر و“ یہ آپ سے روز و عد ہ کریں گے لیکن انہیں جوں ہی کو ئی بھی موقع
ملے گا یہ سینہ تان کر کھڑے ہو جائیں گے ۔ہم میں کچھ لوگ بزدل ہوتے ہیں ،یہ دنیا
کی سب سے بڑی فوج کے سپہ سالار بن جائیں تو بھی یہ اپنی ٹانگوں پر کھڑے نہیں ہوتے۔
ہم میں سے کچھ لوگ شکی مزاج ہوتے ہیں آپ انہیں حرم شریف میں بھی بٹھا دیں مگر ان
کا شک نہیں جائے گا ۔ہم میں سے کچھ لوگ غیر مطمئن ہوتے ہیں، آپ انہیں جنت میں بھی
لے جائیں یہ وہاں بھی کوئی نہ کوئی اعتراض اٹھادیں گے ۔ ہم میں سے کچھ لوگ فراخ دل
ہوتے ہیں ، آپ ان سے ان کی جنت چھین لیں یہ آپ کو معاف کر تے چند سیکنڈ لگائیں گے۔
ہم میں سے کچھ لوگ ہمدرد ہوتے ہیں،یہ سڑک پر پڑے شخص کو تین چار بوتل خون دے دیں گے،یہ
دشمن کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکیں گے ۔ ہم میں سے کچھ لوگ کام چورہوتے ہیں ،یہ
اپنے والد، اپنی والدہ ،بہن ،بھائی اور اولاد تک کے کام نہیں آئیں گے ۔ ہم میں سے
کچھ لوگ پرامید ہوتے ہیں،یہ دوزخ میں بھی جنت میں گھسنے کے منصوبے بناتے رہیں گے ۔
ہم میں سے کچھ لوگ مایوس فطرت کے مالک ہوتے ہیں ،یہ زکام میں مبتلا ہو جائیں تو
کینسر کی ادویات سرہانے رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ہم میں سے کچھ لوگ محتاط ہوتے ہیں،
یہ آب زم زم بھی ابال کر پیتے ہیں ، ہم میں سے کچھ لوگ کیئر فری )غیر
محتاط ہوتے ہیں( یہ سانپ کا انڈہ تک توڑ کر پی جائیں گے اور گھوڑے کے منہ سے گاجر نوچ
کر کھا جائیں گے ۔ ہم میں کچھ لوگ شیخی خوری خوشامد پسند ہوتے ہیں،یہ کھانے ،جمائی
لینے اور خارش کرنے کے بعد بھی داد طلب نظروں سے دائیں بائیں دیکھیں گے۔ ہم میں سے
کچھ لوگ غلامانہ فطرت لے کر پیدا ہوتے ہیں آپ انہیں امریک کا صدر بنادیں مگر یہ
اپنے ڈرائیور ،اپنے پی اے یا چوکیدار کو باس بنا لیں گے ۔ ہم میں سے کچھ لوگ سازشی
ہوتے ہیں، یہ کرہ ارض پر اکیلے رہ جائیں تو بھی سازش سے باز نہیں آئیں گے ۔ہم میں
سے کچھ لوگ نفاست پرست ہوتے ہیں، آپ انہیں کچرا گھر میں پھینک دیں یہ وہاں بھی کسی
نہ کسی طرح ٹشو پیپر تلاش کر لیں گے اور ہم میں سے کچھ لوگ حریص ہوتے ہیں، آپ
انہیں دنیا جہاں کے خزانے دے دیں، آپ قارون کے سات خزانے نکال کر ان کے حوالے کر
دیں، آپ انہیں پوری دنیاکا سونا ،تیل پیدا کرنے والے گیارہ ملکوں کاپٹرول اور
امریکاکی 36 ہزار کمپنیوں کا سارا سرمایہ دے دیں مگر ان کی ہوس ختم نہیں ہوگی،یہ
جاتے جاتے آپ کی چھت کا پنکھا اور آپ کے سلیپر لے جائیں گے۔ دنیا جب بھی اپنے لیئے
حکمرانوں کا تعین کرتی ہے۔ یہ اپنے معاشی اور جغرافیائی حالات سامنے رکھ کر فیصلہ
کرتی ہے مثلا آپ اگر جنگوں کے زمانے میں کسی بہادر شخص کو اپنا حکمران بنا دیں گے
تو یہ ملک کو جنگ میں جھونک دے گا آپ ہٹلر ، میسولینی اور جاپانی شہنشاہ سو آ ہیرو ہٹو کی مثالیں لے سکتے
ہیں ۔ یہ بہادر لوگ تھے۔ یہ غلط وقت میں حکمران بنے اور اپنے ملک تباہ کر وا لئے ۔مثلا
آپ کے ملک پر جنگ مسلط ہو چکی ہے اور آپ اگر اس وقت کسی بزدل شخص کو حکمران بنا
لیتے ہیں تو یہ کیا کرے گا؟ یہ آپ کو پسپائی کی طرف لے جائے گا آپ کو اس وقت ایسے
بہادر شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو نتائج کی پرواہ کئے بغیر قوم کو اکٹھا کرنے اور
دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دے ۔آپ اس سلسلے میں چرچل اور روزویلٹ کی مثال لے سکتے
ہیں،یہ دونوں دوسری جنگ عظیم میں سامنے آئے اور انہوں نے جرمنی اور جاپان کو پسپا
ہونے پر مجبور کر دیا ،برطانیہ کے لوگوں نے دوسری جنگ عظیم کے فورا بعد ونسٹن چر
چپل کو فارغ کر دیا کیونکہ یہ جانتے تھے یہ بہادر شخص ہے اور یہ ہمیں امن سے نہیں
رہنے د ے گا یہ کوئی نہ کوئی نئی جنگ چھیڑ دے گا، سیانی قو میں مالیاتی بحرانوں کے
دنوں میں اقتدار کنجوس اور پر امید لوگوں کے حوالے کرتی ہیں، یہ کنجوس لوگ سانپ بن
کر خزانے کی رکھوالی کرتے ہیں اور یوں معیشت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگتی ہے ۔قومیں
خوشحالی کے زمانے میں فراخ دل لوگوں کو حق حکمرانی دیتی ہیں یہ لوگ عام لوگوں کو
اس خوشحالی میں شامل کرتے ہیں اور یوں قوم کا بچہ بچہ خوشحالی کا ذائقہ چھکتا ہے۔
قومیں غلامانہ فطرت شیخی خوروں ، غیر محتاط مایوس فطرت ظالم، شکی اور حریص لوگوں
کو حکمران نہیں بناتیں۔ انسان نے یہ سبق ہز اروں سال کے تجربے سے سیکھا ہے آپ دنیا
کے کسی بھی ملک کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آپ کو اس ملک میں جب بھی کوئی حر یص،
کوئی شکی ،کوئی خائن، کوئی مایوس فطرت ،کوئی غیر محتاط ،کو ئی شیخی خور ،کوئی
خوشامد پرست یا کوئی غلامانہ فطرت کا شخص تخت پر بیٹھا نظر آئے گا آپ اس دور میں
اس ملک میں ابتری ،خانہ جنگی ،معاشی بدحالی ،قتل و غارت گری، غربت، بیماری اور نا
انصافی دیکھیں گے۔ آپ کو اس دور میں خلق خد ادہائی دیتی نظر آئے گی۔ آپ کسی ملک کی
تاریخ پڑھنا شروع کر دیں، آپ کو وہاں جوں ہی کو ئی فراخ دل بردباد، محتاط اور خوش
دل شخص تخت پر بیٹھا نظر آئے گا آپ کو اس ملک کی تاریخ میں ودوور لق و دق صحرا میں
نخلستان دکھائی دے گا اور آپ جوں ہی کسی ظالم ،حریص یا شیخی خور کو تخت پر قدم
رکھتے دیکھیں گے آپ کو خوش حالی اور امین کا وہ نخلستان ر یت میں ریت ہوتا نظر آئے
گا اور یہ وہ حقیقت ہے جس تک پہنچنے کیلئے انسان کو دس ہزار سال لگ گئے انسان کو
اس کی دس ہزار سال کی تاریخ نے سکھایا
انسان کو بھی اپنا مقدر غلط فطرت کے لوگوں کے حوالے نہیں کر نا چا ہے اور یہ غلطی
اگر ہو جائے تو انسان کو اس کی اصلاح میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں
ملک اور معاشرے کو ہمار ملک اور معاشرہ بنتے دیر نہیں لگتی۔
جدید ریسرچ کے مطابق "نیچر کین ناٹ بی چینج" کا
فارمولا تبدیل ہو چکا ہے ، جدید ریسرچ کہتی ہے کہ انسان اپنے اوپر محنت کرلے تو
کوئی وجہ نہیں کہ وہ نہ صرف چینج ہو سکتا ہے بلکہ بہتر اور مطمئن زندگی بھی گزار
سکتا ہے اور کامیاب ہو سکتا ہے ۔اس لیے جدید دنیا میں سیلف ہیلپ اور گرومنگ کی بکس
ریکارڈ توڑ چھپتی ہیں ۔اگر ہم بھی اپنے آپ
کو چینج کر لیں تو معاشرہ خود بخود تبدیل ہو جائے گا، نہ صرف ہم اپنی ذاتی زندگی
میں ترقی کریں گے بلکہ معاشرہ بھی ترقی
کرے گااور ملک پاکستان بھی ترقی کرے گاپھر ہمیں کسی سے کوئی گلہ شکوہ تک نہی رہے
گا۔ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ اپنی ذاتی زندگی پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور ملک کی حالت
بدلنے چل نکلے ہیں۔ہم کتنے سادہ لوگ ہیں ہم
کانٹوں پر لیٹ نیند کی دعا مانگتے ہیں اور پتھروں کو پانی دے کر چاولوں کی فصل کا
انتظار کرتے ہیں ، ہم بھی کتنے سادہ لوگ ہیں۔

0 Comments