پاکستانیوں
کی خوبیاں
تحریر
: ایچ ۔ایم۔ زکریا
ڈیلف ایمسٹرڈیم
میں رہتی ہے،
اس نے دوسری شادی کی۔
وہ جوان، خوبصورت، پڑھی لکھی اور مہذب
خاتون
تھی جب کہ اس کا خاوند گجرات کا ان پڑھ اور ادھیڑ عمرشخص تھا، محمد اکرم اور ڈیلف کی عمروں میں بیس سال کا فرق تھا، ڈیلف تیس برس کی دہلیز پر بیٹھی تھی اور اکرم صاحب پچاس کی لکیر عبور کر چکے تھے، یہ دونوں ایمسٹرڈیم میں رہتے تھے، اکرم صاحب بیس سال کی عمر میں یورپ آئے، دھکے کھاتے ہالینڈ پہنچے اور یہاں کے ہو کر رہ گئے، یہ مزدور تھے، پوری زندگی مزدوری میں گزار دی، یہ ایک دن پھولوں کے فارم میں کام کر رہے تھے، فارم کا مالک ان کے پاس آیا اور ان سے پوچھا "کیا تم پاکستانی ہو" اکرم صاحب نے ہاں میں سر ہلا دیا، مالک نے اس کے بعد ان سے عجیب سوال کیا " کیا تم ہالینڈ کی خوبصورت لڑکی سے شادی کر لو گے" اکرم صاحب نے حیران ہو کر پوچھا "کیا مطلب" مالک نے جواب دیا " میری سالی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے، یہ کسی پاکستانی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے، میں صرف تمہیں جانتا ہوں چنانچہ میں نے تم سے پوچھ لیا"۔اکرم صاحب رشتے کے اس عجیب و غریب پیغام پر حیران رہ گئے، مالک انھیں حیران دیکھ کر بولا " تم خاتون سے مل لو، اگر تمہیں پسند آئی تو تم اس سے شادی کر لینا " اکرم صاحب مان گئے، ملاقات ہوئی، اکرم صاحب کو خاتون پسند آ گئی اور شادی ہو گئی، خاتون نے اکرم صاحب کی زندگی کی سمت بدل دی، وہ فارم ہاؤس کے مزدور سے پھولوں کے بیوپاری بن گئے، ڈیلف کا کہنا ہے کہ " یہ میری دوسری شادی ہے، میرا پہلا خاوند بھی پاکستانی تھا، میں نے 20 سال کی عمر میں اس سے شادی کی، ہم دس سال اکٹھے رہے، وہ بےچارہ حادثے میں فوت ہو گیا، میں نے اس کے بعد فیصلہ کیا میرا دوسرا خاوند بھی پاکستانی ہو گا"۔اس کا کہنا تھا "میں نے پاکستانیوں میں عجیب عادت دیکھی جو دوسری کسی کمیونٹی میں موجود نہیں، پاکستانی کھل کر قہقہہ لگاتے ہیں، یہ سارا دن بیٹھے رہیں تو یہ سارا دن قہقہے لگاتے رہیں گے، میرا پہلا خاوند بھی اتنا ہی زندہ دل تھا اور میرا یہ خاوند بھی زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتا ہے" یہ کہانی میں نے ایک جگہ پڑھی اور پھر میں نے اس کے بعد پاکستانیوں کو ڈیلف کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا، اور پھر بہت سی خوبیاں مجھے پاکستانیوںیں نظر آئیں، ڈیلف کا مشاہدہ درست تھا۔ہم لوگ واقعی کھل کر ہنسنے کے ماہر ہیں، میں آج یہ خوبیاں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، آپ بھی22 کروڑ مایوس لوگوں کی ان خوبیوں پر حیران رہ جائینگے، یہ خوبیاں آپ کو دوسری اقوام میں کم ملیں گی۔ پاکستانیوں کی پہلی خوبی مہمان نوازی ہے ، ہم لوگ مہمان نواز ہیں، ہم لوگ کسی مہمان کو چائے اور کھانے کے بغیر نہیں جانے دیتے، ہم ادھار لے لیں گے مگر مہمان کو خاطر داری کے بغیر اٹھنے نہیں دینگے، گھر میں کوئی اچھی چیز پک جائے تو ساتھ والے گھر میں ضرور بھیجتے ہیں بلکہ ہم تو اس پر درود پڑھ کر اپنے مُردوں کو بھی ایصال ثواب پہنچا دیتے ہیں یعنی ہم اپنے مُردوں کو بھی نہیں بھولتے۔دوم۔ہم میں حس مزاح ہے، ہم ہنسنا جانتے ہیں، لوگ یورپ اور امریکا کے تعلیمی اداروں میں ہمارے طالبعلموں کو ٹولیوں میں بیٹھ کر ہنستے اور لوٹ پوٹ ہوتے دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں۔سوم ۔ہم لوگ صدقات اور خیرات میں دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں، ہم میں سے 98 فیصد لوگ صدقہ کرتے ہیں، ہم خیرات بھی دیتے ہیں، ہمارے دروازوں سے ضرورت مند خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے،بلکہ ضرورت مند کی حالت زار دیکھ کر ہماری آنکھوں میں چند سیکنڈ کے لیے آنسو بھی آجاتے ہیں۔چہارم ۔ہم میں "لوک دانش" موجود ہے، آپ چٹے ان پڑھ لوگوں سے گفتگو کریں، آپ کو ان کی گفتگو میں محاورے بھی ملیں گے، ضرب المثل بھی، قصے بھی، واقعات بھی اور زندگی کے سبق بھی۔پانچ ۔ہم لوگ جی جان سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں، آپ کسی جگہ کھڑے ہو جائیں اور کسی گزرنے والے سے راستہ پوچھ لیں، وہ باقاعدہ رک کر نہ صرف آپ کو راستہ بتائے گا بلکہ وہ آپ کے ساتھ چل پڑیگا، لوگ دوسرے لوگوں کو راستہ بھی دیتے ہیں، خواتین اور بزرگوں کے لیے جگہ بھی خالی کر دیتے ہیں حتٰی کہ راستوں میں پانی اور دودھ کی سبیلیں بھی لگاتے ہیں، یورپ میں لوگ دوسروں سے صرف عادتاً پوچھتے ہیں " میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں " جب کہ ہمارے ملک میں لوگ حقیقتاً دوسروں کی مدد کرتے ہیں، یہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں زخمیوں کو ہسپتال چھوڑ کر آتے ہیں، آگ لگنے کے بعد پورا محلہ مل کر آگ بجھاتا ہے اور زلزلے اور سیلابوں کے بعد پورے ملک سے امدادی قافلے چل پڑتے ہیں۔ چھ۔ لوگوں کو یہاں سوئی سے لے کر جہاز تک درکار ہیں ،پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے، آپ یہاں زہر بھی بیچنا چاہیں تو وہ بک جائے گا، ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود سبزی بازار سے خریدتے ہیں، گھر میں لان موجود ہوگا لیکن ہم اس سے آلو، پیاز اور لیموں حاصل کرنا توہین سمجھتے ہیں چنانچہ ہم بائیس کروڑ لوگ کنزیومر ہیں، دنیا میں کسی جگہ اتنی بڑی مارکیٹ موجود نہیں چنانچہ پاکستان میں صنعت، کاروبار اور تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ سات۔پاکستان کاڈیڑھ سو سال پرانا بنیادی انفرا سٹرکچر، سڑکوں کا معیار، صفائی، مواصلاتی نظام سارک کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت اچھا ہے، ہماری سڑکیں یورپ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں لیکن یہ پھر میں ہمسایہ ممالک سے بہت آگے ہیں، پاکستان میں دنیا کا دوسرا بڑا نہری نظام بھی ہے، ہم آج بھی ایک سو 60 سال پرانی ریل کی پٹڑی پر ٹرین چلا رہے ہیں اور ہمارا گندے سے گندا شخص بھی کھانا کھانے سے قبل ہاتھ ضرور دھوئے گا جب کہ سارک کے دیگر ممالک میں یہ روایت موجود نہیں۔آٹھ۔ لوگ پاکستان میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلاتے ہیں، ملک کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بیس فیصد طالبعلم انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ گلی گلی میں پرا ئیویٹ ا سکول ہیں بلکہ کچی بستیوں تک میں پرائیویٹ انگریزی اسکول قائم ہیں، یہ حقائق عوام کی تعلیم پسندی ثابت کرتے ہیں جب کہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک میں یہ رجحان موجود نہیں۔ نو ۔ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم قائم ہیں اور باپ دادا کے ساتھ رہتے ہیں، ہمارے ملک میں ایک شخص پورے خاندان کی ذمے داری اٹھا لیتا ہے، یہ اس ذمے داری کو مذہبی فریضہ سمجھ کر نبھاتا ہے، آپ کو یہ احساس ذمے داری دنیا کے دیگر ممالک میں نظر نہیں آتا۔ دس۔ ہمارے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، یہ نہ صرف برائیوں اور خرابیوں سے واقف ہیں بلکہ یہ ان کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں، آپ کسی شخص کے پاس بیٹھ جائیں وہ "ہم لوگ" کے فقروں سے گفتگو شروع کرے گا "ہم لوگ ایسے ہیں اور ہم لوگ ویسے ہیں" اور پھر پورے معاشرے کی خرابیاں بیان کرنے میں گھنٹہ دو گھنٹے لگا دےگا، یہ معاشرتی اعلیٰ ظرفی اور اعتراف جرم کسی دوسری قوم میں نہیں ، لوگ یہ معاشرتی برائیاں دور بھی کرنا چاہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے ہمارے لوگ ہر قسم کے احتجاج، مارچز، جلسے، جلوس اور ریلیوں میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔گیارہ۔اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو مریض کے گھر تیماداری کے لیے سارا محلہ اور خاندان تک پہنچ جاتا ہے ، تیماداری کے لیے آنے والوں میں 98 فی صد حکیم اور ڈاکٹر بھی بن جاتے ہیں اوروہ سارے مریض کوآزمودہ گھریلو ٹوٹکے بھی بتاتے ہیں، مریض ان میں سے کوئی پڑیا، کوئی شربت ضرور ٹرائی کرتا ہے جبکہ پوری دنیا میں آپ کو ایسا کہیں نہیں ملے گا۔
یہ
پاکستانی معاشرے کے خوبصورت رنگ ہیں، ہم شاندار لوگ ہیں بس ہمیں اپنی خوبیاں نظر
نہیں آتیں، ہم نے جس دن ڈیلف کی طرح اپنی خوبیاں دیکھ لیں، ہم نے اپنے رنگ دیکھ
لیے، ہم اس دن ترقی کے راستے پر آ جائیں گے، ہم اس دن پاک سرزمین شاد باد بن جائیں
گے، ہم اس دن سچے پاکستانی ہو جائیں گے۔

0 Comments