آپ کے لیے امید کی کرن کہاں ہے؟

تحریر: ایچ-ایم-زکریا



موٹیویشن کو میں عام طور پر امید کہا کرتا ہوں لوگ کہتے ہیں کیا آپ موٹیوشن دیتے  ہیں،  میں کہتا ہوں کہ نہیں میں تو صر ف ایک امید دیتا ہوں، کیوں؟ کیوں کہ امیدہے ہی اتنی اہم چیز۔ آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے  کہ اللہ پاک اپنے کلام مقدس میں جب کوئی حکم نازل فرماتے تو اپنے نبی ﷺ کے ذریعے نازل فرماتے کہ اے نبی ﷺ فلاں حکم میرے بندوں سے کہہ دیجئے فلاں حکم میرے بندوں سے کہہ دیجئے، لیکن جب بات امیدکی آئی تو اللہ پاک اپنے کلام مقدس میں براہ راست انسانوں سے خود فرمانے لگے کہ اے میرے بندو میری رحمت سے ناامید نہ ہونا ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امید اتنی اہم چیز ہے۔ ہمارے ہاں ایجوکیشنل انسٹیوٹ، انفارمیشن انسٹیوٹ،مین سٹریم میڈیا، سوشل میڈیاکہیں بھی موٹیویشن ہے اور نہ ہی موٹیوشن کا تھیم ہے، لیڈر شپ کا تھیم ہے نہ ہی کہیں مثبت آگاہی ملتی ہے،کوئی تھپکی دینے والا نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی کندھا دینے والا، بس صرف ترنگ ہی ترنگ  چل رہا ہے، جھگڑا ہی جھگڑا ہے جس نے پوری قوم کو ترنگ میں ڈال رکھا ہے اور قوم کو جھگڑالو بنا رکھا ہے۔ پاکستان میں غیر یقینی کیفیت کے ساتھ ساتھ موٹیوشن کے سورس بھی بہت کم ہیں،انڈیاہمار ا پڑوسی ملک ہے، ہمارے ساتھ آزادی حاصل کی، وہاں ہر سال بیسیوں ایسے ایڈمیڈیا پرقوم کو دکھائے جاتے ہیں جو پراپر ایک تھیم پر ڈرا کر کے قوم کو دکھائے جاتے ہیں ان کے بیسیوں ایسے ایڈ ہیں جو موٹیوشن کے لیے ہیں،جو انساپائریشن کے لیے ہیں،جو لیڈرشپ کی کوالٹی پر ہیں، جو پروفیشنل انسان بنانے کی تھیم پر ہیں، جو کسی کو تھپکی دینے کی تھیم پر ہیں جو کسی کا سہارا بننے کی تھیم پر ہیں۔ایک ایڈ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ایڈ یہ ہے کہ صبح کا وقت ہے سب لوگ گھر سے نکلتے ہیں ملازمین دفاتر جارہے ہیں بزنس مین فیکٹری جارہے ہیں، سیاستدان اسمبلی جارہے ہیں،بچے سکول جارہے ہیں، ریڑھی والے اپنے فٹ پاتھوں پر جارہے ہیں، آڑھتی منڈی جارہے ہیں، پروفیسر کالج جارہے ہیں، سب اپنی  اپنی منزل کی طرف رواں دوا ں ہیں کہ راستے میں ایک سڑک پر درخت گر گیا اب سیاستدان بھی جار ہا تھا تو سیاستدان کے لیے درخت سے آگے ایک گاڑی لگی ہوتی ہے، اس کو اس کی انتظامیہ کہتی ہے کہ سر آپ کے لیے گاڑی آگے لگی ہے آپ اس پر بیٹھ کر چلے جائیں،وہ اپنی پہلی گاڑی سے نکل کر دوسری گاڑی  میں بیٹھ کر اس میں چلا جاتا ہے۔پولیس والا پولیس والے کو کہتا ہے کہ راستہ بند ہے،وہ کہتا ہے ابے مجھے سونے دے۔سارے گاڑیوں میں سمٹے بیٹھے ہیں کہ درخت ہٹے گا، راستہ کھلے گا تو جائیں گے، اتنے میں ایک بچہ ہمت کرتا ہے  اپنی سکول وین سے نیچے اترتا ہے بارش ہونا شروع ہو جاتی ہے، وہ آکر درخت کو دھکا لگانا شروع کر دیتا ہے کچھ دیر بعد اس کو دیکھ کر جھگیوں کے بچے بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں،کچھ دیر بعد ایک اپاہج آجاتا ہے وہ بھی درخت کو دھکا لگانا شروع کر دیتا ہے،پھر دیکھا دیکھی شرم کے مارے اورلوگ بھی اپنی اپنی سواریوں کو چھوڑ کر آجاتے ہیں اور دھکا لگانا شروع کردیتے ہیں راستہ کھل جاتا ہے۔ اور سب لوگ اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ پیغام کیا ہے؟ پیغام یہ ہے کہ راستے کی رکاوٹ ایک ہٹاتا ہے لیکن راستہ سب کے لیے کھل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس چیز کی ضرورت ہے، ہم تو جس مذہب کے پیروکار ہیں وہ بھی یہی کہتا کہ ایمان کی بہت سی شاخیں ہیں سب سے نیچے والی شاخ یہ ہے کہ راستے کی رکاوٹ کو ہٹایا جائے یہ صدقہ میں بھی شمار ہوتی ہے، طائف کا واقعہ اس کی زندہ مثال اور ہزاروں نمونوں میں سے ایک ہے۔ رسول اللہ نبوت کے بعد10سال تک اپنی قوم قریش میں دعوت دیتے رہے ، مگر ان لوگوں نے آپ کی دعوت کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کیا بلکہ بڑی بے رخی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا، اپنے اوباشوں ،غلاموں اور لونڈیوں کو لگا دیا جو آپ پر اینٹ ، پتھر پھینک رہے تھے، یہاں تک کہ آپ کا جسم لہولہان ہوجاتا،۔ اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر جبکہ جنگ کا بازار گرم تھااور آپ لہو لہان تھے، اس وقت بھی آپ پُر امید ہیں کہ یہ آج ہم سے لڑ رہے ہیں، مگر ہوسکتا ہے کہ کل ہمارے وفادار ہوجائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ امید اَور مستقبل کے بارے میں اچھی توقعات کا ہونا ایسی طاقت ہے جو انسان کو تعمیری رول ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسی کے سہارے انسان اس کرہ ارضی کو آباد کرتا ، اونچی اونچی عمارتیں کھڑی کرتا ، کھیتی باڑی اور کاروبار کرتا ،نئی چیزیں ایجاد کرتا ، سیاست وحکومت میں اپنا رول ادا کرتا اور سنجیدہ جدوجہد اور مفید کام پورے اخلاص سے انجام دیتا ہے۔ بہتر مستقبل کی امید ایسی بھڑکتی روشنی ہے جو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی انسان کو راستہ دکھاتی اور اس پر آگے قدم بڑھانے پر آمادہ کرتی ہے۔یہ روشنی انسان کی مدد ودستگیری کرتی ہے کہ وہ ایسی زندگی بسر کرسکے جس میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں اور انسان اپنی تمنائوں کو پورا اور اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکے۔

ہمیں بھی اس سپرٹ سے کام کرنا ہوگا آج سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں ہم سیاستدانوں کے لیے لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں تو وہاں کم سے کم ہمیں اس طرح کی پوسٹ اور ایڈز اپنے سوشل میڈیا پر نظر آنے چاہیں، اس سے معاشرے میں بھی بہتری اور سکون آئے گا اور ملک بھی ترقی کرے گا۔ہمیشہ دوسروں کے لیے راستہ بنائے دوسروں کے لیے راستے آسان کیجئے آپ کی اپنے کامیابی کے راستے بھی کھلتے اور آسان ہوتے چلے جائیں گے۔