خوش رہنے کا آسان فارمولا
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
چند دن پہلے اپنے بچوں کو ساتھ لے کر پارک گیا ان کو گھومایا پھرایا سیر کرائی ڈیڑھ دو گھنٹہ بعد بچے بور ہونے لگے اور کہنے لگے کہ بابا اتنا ٹائم ہو گیا ہے اب گھر چلیں وقت ہی نہیں گزر رہا۔ ان کی یہ بات کہ وقت ہی نہیں گزر رہا مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرنے لگی کہ ہم تو صبح اٹھتے ہیں تو شام ہوتے دیر نہیں لگتی اور ان کو ڈیڑھ دو گھنٹہ بہت بڑا لگ رہا ہے ، لیکن پھر سوچا کہ شاید یہ ایج فیکٹر ہے، جبکہ ہمیں محسوس ہوتا ہے وقت کی رفتار میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم صبح اٹھتے ہیں اور جمائی لینے سے پہلے ہی شام ہو جاتی ہے ہمارے پاس وقت کی اس قدر کمی ہو جاتی ہے کہ ہمیں ٹائم مینجمنٹ کیلئے بھی وقت نہیں ملتا ،دہائیاں سالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ سال مہینے کے برابر ہو جاتے ہیں، مہینے دن بن جاتے ہیں اور دن چند گھنٹوں کا ہو جاتا ہے اور ہمیں یوں محسوس ہو تا ہے وقت ریت بن گیا ہے اور یہ ریت ہماری مٹھی سے تیزی سے کھسک رہی ہے یہاں تک کہ ایک دن ہم شیشےمیں اپنی شکل دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں ایک اجنبی شخص دکھائی دیتا ہے۔ ہماری شکل تبدیل ہو چکی ہوتی ہے ہمارے بال سفید ہو چکے ہوتے ہیں ،آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ چکے ہوتے ہیں اور نسیں رسیوں کی طرح تن کر ہماری گردن کے ساتھ لپٹی ہوتی ہیں اور ہم حیرت سے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور خود سے سوال کرتے ہیں ہماری نوجوانی اور ہمارا لڑکپن کہاں گیا میں نے تو ابھی دنیا دیکھی ہی نہیں تھی، یہ بڑھاپا کہاں سے آگیا ۔
وقت کی رفتار
میں یہ تیزی ہم سب کا ایشو ہے ہم روز سوچتے ہیں ہماری زندگی میں ایک ایسا وقت بھی
تھا جب دن کے مہینے طویل اور سال صدیوں کے برابر ہوتے تھے۔ ہم کام کر کر کے تھک
جاتے تھے لیکن شام نہیں ہوتی تھی۔ شام ہوتی تھی تو رات اور شام کے درمیان وقت ٹہر
جاتا تھا۔ ہم بار بار وقت پوچھتے تھے اور ہمارے بزرگ ہمیں بتاتے تھے ابھی صرف نو بجے
ہیں اور ہم کہتے تھے ابھی صرف نو بجے ہیں اور جب رات ہوتی تھی تو یہ رات ختم نہیں
ہوتی تھی، ہم رات کے سناٹے میں کئی کئی بار جاگتے تھے کئی کئی بار پانی پیتے تھے
اور کئی کئی گھنٹے دیواروں پر لرزتے کا نپتے ہیوالوں کو جن بھوت بنتے دیکھتے تھے
لیکن رات ختم نہیں ہوتی تھی، صبح ہوتی تھی تو یہ بھی ایک بھی نا ختم ہونے والی صبح
ہوتی تھی، ہم اس صبح میں نماز بھی پڑھتے تھے مارنگ واک کرتے تھے، نہاتے تھے،
پراٹھوں کاناشتا کر تے تھے اور ہمسائے کے بچوں کے ساتھ چہلیں بھی کرتے تھے لیکن اس
کے باوجود سکول جانے کا وقت نہیں ہوتا تھا۔ سکول کا دورانیہ بھی لمبا ہو تا تھا
چالیس منٹ کا پیریڈ چالیس سال جتنا لمبا ہو تا تھا ہم اس پیریڈ میں پڑھتے بھی تھے
شرارتیں بھی کرتے تھے کاغذ کے جہاز بھی اڑاتے تھے دوسروں کی جیب میں پانی بھی
ڈالتے تھے دوسروں کی قمیض ڈیسک کے ساتھ باندھتے بھی تھے، استاد کی مار بھی کھاتے تھے
مرغا بھی بنتے تھے پی ٹی بھی کرتے تھے اور سکول سے بھی بھاگتے تھے ۔ سکول سے چھٹی
کے بعد بھی ایک لمبادن ہمارا منتظر ہوتا تھا اور ہم اس لمبے دن میں قیلولہ بھی
کرتے تھے ،گراؤنڈ میں کرکٹ اور ہاکی بھی کھیلتے تھے ،دوسرے کے گھروں کے شیشے بھی
توڑتے تھے لوگوں کے گھروں میں تانک جھانک بھی کرتے تھے۔ گھر کا سودا سلف بھی لاتے
تھے سودے سے چار پیسے بھی اڑاتے تھے، دوستوں کے ساتھ کون آئس کریم بھی کھاتے تھے۔
بازار میں آوارہ بھی پھرتے تھے لائبریری سے کتابیں بھی چوری کرتے تھے اور پھریہ کتابیں پڑھتے بھی تھے۔
رات کو پی ٹی وی کے ڈرامے بھی دیکھتے تھے اور ابا جی کی مار بھی کھاتےتھے لیکن دن مکمل نہیں ہو تا
تھا، جب ہمارے پاس چار رنگوں والا ایک پین ہوتا تھا اور ہم سب کے بٹن کو ایک ساتھ
دبانے کی کوشش کیا کرتے تھے، جب ہم دروازے کے پیچھے چھپ جاتے تھے تاکہ اگر کوئی
آئے تو اسے ڈرا سکیں، جب آنکھ بند کر کے سونے کا ڈرامہ کیا کرتے تھے تاکہ ہمیں
کوئی گود میں اٹھا کر بستر تک پہنچا دے، جب رات کو سائیکل چلاتے ہوئے یہ سوچا کرتے
تھے کہ یہ چاند ہماری سائیکل کے ساتھ ساتھ کیوں چل رہا ہے، فریج آہستہ بند کرکے یہ
جاننے کی کوشش کرتے کہ اس کی روشنی کب آف ہوتی ہے، جب بچپن میں ایک روپے والی پتنگ
کے پیچھے 2 کلو میٹر تک بھاگ جاتے تھے اور نہ جانے کتنی چوٹیں بھی لگتی تھیں، سکول میں جن کے ساتھ لڑتے تھے آج
انھیں فیس بک پر تلاش کرتے پھرتے ہیں ، چنانچہ ہم اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کیلئے اپنی
عمر میں خود ہی دو تین سال کا اضافہ کر لیتے تھے مگر اس کے باوجود چھوٹے سے چھوٹے
ہی رہتے تھے لیکن اب سال مہینے، مہینے دن اور دن گھنٹے بن چکا ہے کیوں؟ ہمارے دماغ
کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہمارا دوسرا ایشو خوشی ہو تا ہے۔ ہم جوں جوں گروتھ
کرتے جاتے ہیں ، ہم زندگی میں آگے بڑھتےجاتے
ہیں ، ہم کامیاب ہوتے جاتے ہیں توں توں خوشی ہماری گرفت سے نکلتی چلی جاتی
ہے ایک وقت ہوتا تھا جب نیا ر ومال خرید نے کے بعد ہم خود کو دنیا کا امیر ترین
شخص محسوس کرتے تھے،ہم نئے جوتے، نئے کپڑے سرہانے رکھ کر سوتے تھے ،رات کو اٹھ اٹھ کر انہیں دیکھتے تھے اورہمارا دل خوشی سے لبریز ہو جاتا تھا، جب دس روپے کا نوٹ ایک لاکھ روپے کے برابر ہوتا تھا
اور ہم بندر کا تماشا دیکھ کر یا ہم ریچھ کوڈگڈگی کی ٹک ٹک ٹک پر ناچتے دیکھ کر دس دس دن
تک خوش رہتے تھے، جب ہم بس میں سیٹ ملنے
پر یوں خوش ہوتے ہیں جیسے ہم واسکوڈے گاما ہیں ، جب ہم ایک سو روپے میں مہینہ گزار لیتے تھے اور یہ رقم ہمیں ہزاروں لاکھوں
خوشیاں دیتی تھی اور جب ہم کسی کی ایک جھلک دیکھ کر پنجوں پر ناچتے تھے اور سب کو بلا بلا کر بتاتے تھے وہ
مجھے آج دیکھ ر ہی تھی یا دیکھ رہا تھا " ہائے اللہ اس نے مجھے آج دیکھ کر نفرت سے منہ نہیں پھیرا میں
صدقے میں قربان “ لیکن پھر ایک ایساوقت آجاتا ہے جب ہمارے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔ ہم
لاکھوں کروڑوں کے مالک بن جاتے ہیں ہم پوری پوری بس، سارے شہر کی پتنگیں ، آئس کریم فیکٹر ی اور بالی کے جوتے اور کنالی برانڈ کے سوٹس خرید سکتے ہیں اور وہ جھلک جو
ہمیں پنجوں پر ناچنے پر مجبور کر دیتی تھی وہ ہماری بیوی یا ہمارا خاوند بن جاتی
ہے لیکن اس وقت ہمیں اپنا دل خوشی سے خالی محسوس ہوتا ہے۔ ہماری عید اور شام
غریباں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ہم خوشی کے ہر موقع پر کوئی خالی کونہ تلاش کرتے
ہیں اور وہاں بیٹھ کر اپنی جیبوں میں خوشی ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ ہم قہقہے لگاتے
تالیاں بجاتے اور چلتے کودتے لوگوں میں خود کو اکیلا اداس اور پریشان پاتے ہیں اور
ہمیں اپنی اداسی اپنی پریشانی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ ہم اپنے آپ سے پوچھتے
ہیں سیٹھ محمد اشرف تم اداس کیوں ہو جمعہ خان تم پریشان کیوں ہو یار ضیہ بیگم تمہیں ساری ساری رات نیند کیوں نہیں آتی اور اس
پوری دنیا میں کسی شخص کے پاس ہمارے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا، اور اس وقت
میرے پاس وقت ہی وقت تھا جب میں دریا کے کنارے مہینوں بیٹھا رہتا تھا لیکن صبح سے
شام نہیں ہوتی تھی ،لیکن اب میرے پاس وقت ہے اور نہ ہی خوشی۔ کبھی ہلکی سی بارش کی
پھوار کی بوندیں میری روح تک کو گیلا کر دیتی تھیں اور آج میں طوفانی بارشوں میں
بھی موم کے کاغذ کی طرح سو کھارہتا ہوں کیوں؟ اس کیوں کا جواب مجھے چند دن قبل
امریکی یونیورسٹی کی ایک ریسرچ نے دیا یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق انسان کے پاس
وقت اور خوشی صرف بچپن میں ہوتی ہے اس کی وجہ تجسس، لمحہ موجود میں رہنا اور محدود
خواہشیں ہوتی ہیں، انسان کیلئے بچپن میں ہر چیز نئی ہوتی ہے اور یہ ہر چیز کو بڑے غور اور توجہ سے
دیکھتا ہے اور غور اور توجہ وقت کی رفتار کو سست کر دیتی ہے۔ بچپن میں ہر بچہ بندر
کے تماشے کیلئے رک جاتا ہے جبکہ بڑے توجہ دیئے بغیر اس کے قریب سے گزر جاتے ہیں
بچے کا یہ رکنا اور لمحہ موجود میں رہنا وقت کی رفتار کو آہستہ کر دیتا ہے۔ ہم آج
بھی جب کوئی نئی چیز ،نئی جگہ یا نیا مقام دیکھتے ہیں تو ہمارے وقت کی سپیڈ کم ہو
جاتی ہے کیونکہ حیرت اور تجسس ہمارے وقت کے پاؤں پکڑ لیتا ہے ،اسی طرح نئے جوتے، نئے کپڑے اور مٹھائی کا ڈبہ بچے کی زندگی
کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے اور جب یہ خواہش پوری ہوتی ہے تو اس کا دل خوشی سے
لبریز ہو جاتا ہے لیکن جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں تو ہماری خواہشوں کی فہرست بہت وسیع
ہو جاتی ہے چنانچہ آج بھی ہم اپنی زندگی میں لمحہ موجود میں رہنے ، حیرت اور تجسس
کا عنصر لے آئیں اور اپنی خواہشوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر لیں اور ہر
خواہش کو روزانہ پورا کریں تو ہمارا دن آج بھی مہینے بن جائے گا اور ہمارا دل خوشیوں سے بھر سکتا ہے۔ریسرچ کے
مطابق بچے بن جائیں ، خوامخواہ کی ٹینشنیں جو ہم نے پال رکھی ہوتی ہیں ان کو دماغ
سے جھٹک دیں، مستقبل کے بےجا خوفوں سے اپنے آپ کو آزاد کر لیں اور لمحہ موجود میں
رہیں، اپنی خواہشیں کم کر لیں اور ہر چیز کے بارے میں تجسس اپنے اندر پیدا کر لیں
تو ہماری ہرخوشی بچپنے والی خوشی بن جائے
گی، بس ہم بچے بن جائیں۔
.jpg)
0 Comments