صفائی نصف ایمان ہے لیکن کیسے

تحریر: ایچ -ایم -زکریا




الیگزینڈر گتاوے آ ئفل نے 31 مارچ 1889 ء میں آ ئفل ٹاور مکمل کیا تھا، یہ ٹاورپیرس کی پہچان ہے، یہ  شروع میں صرف بیس سال کیلئے بنایاگیا تھا اور اس نے 1909 ء میں ختم ہو جانا تھا اس کی وجہ پیرس کے لوگ تھے۔ پیرس کے لوگ خوب صورت آرٹ اور کلچرکے دلدادہ ہیں  ، یہ برش اور تیشے کے ذریعے پتھر کے بتوں اور خالی کینوس میں جان ڈال دیتے ہیں، ان لوگوں کے سامنے جب لوہے کا ایک بد صورت ڈھانچہ کھڑا کر دیا گیا تو یہ ان کے ذوق سلیم پر گراں گزرا ،چنانچہ انہوں نے آ ئفل ٹاور کے خلاف احتجاج شروع کر دیا، پیرس کی انتظامیہ اس احتجاج کی تاب نہ لا سکی لہذا فیصلہ ہوا آ ئفل ٹاور کو بیس سال بعد توڑ دیا جائے گا بیس سال پورے ہوئے توریڈیو ایجاد ہو گیا ریڈیو کے سگنلز کیلئے پیرس میں ایک بلندعمارت درکار تھی اور آ ئفل ٹاوروہ واحد مقام تھا جہاں سے تقریبا پورے پیر س کو ریڈیو کے سگنلز مل سکتے تھے انتظامیہ نے  آ ئفل ٹاور پر ریڈیو کا بوسٹر لگا دیا اور یہ بوسٹر بعد ازاں آ  ئفل ٹاور کی زندگی بن گیا۔ آپ قدرت کا کمال ملاحظہ کیجئے لوہے کاوہ ڈھانچہ جسے پیرس کے لوگ بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے آج دنیا بھر میں یہ پیر س کی پہچان ہے اور پیر س شہر میں داخل ہونے والا ہر شخص اس وقت تک اپنی سیر کو مکمل نہیں سمجھتا جب تک یہ آ ئفل ٹاور کا نظارہ نہیں کر لیتا۔یہ  10 ہزار ٹن وزنی لوہے کا ایک ڈھانچہ ہے جس کی اونچائی 324 میٹر ہے اس ٹاور پر روزانہ ایک لاکھ لوگ آتے ہیں، یہ لوگ ٹکٹ کے حصول کیلئے تین تین گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور چیونٹی کی رفتار سے چلتے ہوئے آ ئفل ٹاور کی چوٹی پر پہنچتے ہیں اس چوٹی سے پورا پیر س دکھائی دیتا ہے آ ئفل ٹاور کی یہ چوٹی پیرس کی مہنگی ترین جگہ ہے ،آپ اگر دنیا کی اس مہنگی ترین جگہ پر جائیں تو آپ اس بلندی پر واش روم دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں یہ ایک چھوٹا سا واش روم ہے جس میں خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ کیبن بنے ہوئے ہیں اس واش روم کیلئے 324 میٹر اونچائی تک پانی بھی پہنچایا جاتا ہے اور طویل پائپوں کے ذریعےگندبھی زمین تک لایا جاتا ہے اور آ ئفل ٹاور کی انتظامیہ کو اس انتظام کیلئے ہر سال لاکھ دو لاکھ یوروز خرچ کرنا پڑتے ہیں انتظامیہ نے واش روم کی صفائی کیلئے باقاعدہ عملہ بھی رکھا ہوا ہے۔ یہ عملہ 324 میٹر کی اونچائی پر دس پندرہ منٹ بعد واش رومز صاف کرتا ہے۔ یہ بظاہر ایک معمولی سی بات ہے لیکن اس قسم کی باتیں ہی دراصل قوموں کے عروج و زوال کی بنیاد بنتی ہیں۔ کچن اور واش روم یہ دونوں مقام  انسان کی انفرادی ترقی کا نقطہ آغاز بھی ہوتے ہیں اور قومی ترقی کا معیار بھی ۔جس گھر کا کچن گندہ اور واش روم بد بودار ہوتا ہے اس گھر کے افراد کا ذوق اچھا ہو سکتا ہے اور نہ ہی صحت اور جو قومیں باورچی خانوں اور باتھ روموں پر توجہ نہیں دیتیں وہ بھی صحت مند ہو سکتی ہیں اور نہ ہی ذوق سلیم کی مالک ۔چنانچہ آپ اگر کسی ملک کی ترقی دیکھنا چاہیں تو آپ اس کے واش رومز میں چلے جائیں اور ان کے ریستورانوں کودیکھ لیں آپ کو اس قوم کے مستقبل کا اندازہ لگانے کیلئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ آپ ہمیشہ ترقی یافتہ ممالک کے واش رومز صاف اور ریستورانوں کو ستھرا پائیں گے جبکہ غیر ترقی یافتہ ممالک کے یہ دونوں مقام آپ کو غلیظ اور بد بودار ملیں گے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان غیر ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان میں پبلک ٹوائلٹس  نام کی کوئی روایت موجود نہیں، آپ کراچی سےخیبر تک کسی مارکیٹ میں چلے جائیں یا کسی سرکاری اور غیر سرکاری عمارت میں داخل ہو جائیں آپ اس کے ٹوائلٹس کے قریب سے نہیں گزر سکیں گے کموڈ غلاظت سے لبالب بھر ے ہوں گے ۔ ٹونٹیاں بہہ رہی ہوں گی فرش گندے ہوں گے اور واش بیسن پر صابن نہیں ہو گا ۔ ہمیں واش روم کے بعد صابن کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان کے نوے فیصد واش رومز میں صابن نہیں ہوتا، آپ کو آج تک پاکستان کی کسی مسجد کے استنجا خانے میں بھی صابن دکھائی نہیں دےگا۔ آپ درمیانے درجے کے ریستورانوں کے واش رومز میں چلے جائیں تو آپ کو وہاں بھی صابن نہیں ملے گا ،آپ ان ریستورانوں کے گک ،کچن کا عملہ اور ویٹر ز کے بارے میں سوچئے یہ لوگ بھی یہ واش روم استعمال کر تے ہیں اور صابن سے ہاتھ دھوئے بغیر کام میں لگ جاتے ہیں۔ ہماری پار لیمنٹ کے ارکان اور پارلیمنٹ کا عملہ بھی صابن سے ہاتھ نہیں د ھوتا اور نماز سے پہلے واش روم اور استنجا خانے استعمال کر نے والے نمازی بھی صابن سے ہاتھ نہیں دھوتے، آپ اس سے اندازہ لگا لیے ہم کس قدر گندے لوگ ہیں ،آپ اس کے بعد پبلک ٹوائلٹس کی طرف آ جایئے آپ کو کپڑوں اور سونے کی ان مارکیٹوں میں بھی پبلک ٹوائلٹ نہیں ملیں گے جہاں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ آپ مینار پاکستان کی چوٹی پر چڑھ جائیں اور اگر آپ وہاں کسی فطری مسئلے کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا۔ آپ بس سٹیشنوں، وین سٹینڈز ، سکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ٹوائلٹ کے قریب جا کر دیکھ لیں آپ کو مکمل مایوسی ہو گی۔ یہ بظاہر ایک معمولی ایشو ہے لیکن یہ ایشو قوموں کی ترقی کا معیار طے کر تا ہے۔ آپ استنبول سے لے کر واشنگٹن تک دنیا کے تمام ترقی یافتہ شہروں میں جھانک کر دیکھ لیے آپ کو ان کے تمام پیک ٹوائی صاف بھی ملیں گے اور خوشبودار ہوادار اور روشن تھی اور یہ آپ کو ہر اس مقام پر بھی ملیں گے جہاں دو چار لوگوں کی آمد ورفت کا امکان موجود ہوتا ہے آپ ترقی یافتہ ملک میں اس وقت تک ریستوران اور بڑی شاپ نہیں کھول سکتے جب تک آپ اس میں واش روم نہیں بناتے اور اس واش روم میں ٹوائلٹ پیپر ،صابن اور پانی کا بندوبست نہیں کرتے ،جبکہ ہمارے ملک میں واش رومز کے بغیر مسجدیں بنی ہوئیں ہیں اور ریستورانوں کے واش روموں کی بد بو کچن تک جارہی ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کے واش رومز میں بھی صابن نہیں ہو تا اور یہ اس قوم کی صورتحال ہے جس کے نبیﷺ نے صفائی کو نصف ایمان کا درجہ دیا تھا۔ ہم اپنے بڑے بڑے مسائل حل نہیں کر سکتے لیکن ہم اپنے نصف ایمان پر توجہ تودے سکتے ہیں ۔ اگر ہم اپنے نصف ایمان پر ہی توجہ دے دیں تو ہماری دنیا اورآخرت کی کامیابی کے سو فیصد امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔