اپنے اندربرداشت کیسے پیدا کریں

تحریر: ایچ-ایم -زکریا

گاما پہلوان پنجاب کا ایک مشہور کردار تھا، اس نے اپنے دور کے نامی گرامی پہلوانوں کو پچھاڑ کر رستم زمان (مسٹر یونیورس) کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا ، یہ ایک لحیم شحیم اور طاقتور پہلوان تھا اور اس کے بارے میں کہاجاتا تھا یہ چھ فٹ کے صحت مند شخص کو ایک ہاتھ سے ہوا میں اٹھا لیتا تھا اور اس حالت میں گھنٹوں کھڑا رہ سکتا تھا، یہ اپنے دور کا خوش خوراک ترین شخص بھی تھا، قیام پاکستان سے پہلے اس کی خوراک کے تمام اخراجات مہاراجہ پٹیالہ برداشت کرتا تھا، پاکستان بنا تو گاما پہلوان معاشی بدحالی کا شکار ہوگیا اور اس کے لیے خوراک کا اتنا ذخیرہ اکٹھا کرنا مشکل ہو گیا ، اس وقت خواجہ ناظم الدین گورنرجنرل تھے گاما پہلوان نے ان سے ملاقات کی درخواست کی، خواجہ ناظم الدین گاما پہلوان سے ملے ، گامے نے عرض کیا ، میں انٹر نیشنل ٹورنامنٹ میں شریک ہونا چاہتا ہوں ، حکومت اگر صرف میری خوراک کا بندوبست کر لے تو میں یہ ٹورنامنٹ جیت سکتا ہوں،  گورنرجنرل نے گامے کی درخواست گورنر پنجاب سر فرانسس مودی کو ریفر کر دی، گورنر نے گامے سے پوچھا ، آپ کو روزانہ کتنی خوراک چاہیے ، گامے نے جواب دیا ، مجھے مہاراجہ پٹیالہ روزانہ چھ گیلن دودھ، تین سیر تازہ مکھن، دو بکروں کا گوشت، بیس پاونڈ بادام اور پھلوں کی تین ٹوکریاں فراہم کرتا تھا، گورنر پنجاب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگا یا اور اپنے اے ڈی سی کو بلا کر کہا پنجاب کا بجٹ گامے کی تندرستی بحال کرنے کےلیے کافی نہیں لہذا یہ کیس وفاقی حکومت کو ریفر کیا جائے۔ گاما پہلوان تقسیم ہندوستان سے پہلے لاہور کی ایک گلی سے گزر رہا تھا ، وہاں کسی شخص نے گامے کو گالیاں دینا شروع کر دیں لیکن گاما یہ گالیاں چپ چاپ سنتا رہا اور مسکراتا رہا، گامے کی اس مسکراہٹ نے اسے مزید براینگیختہ کر دیااور اس نے اپنے ترازو کا باٹ اٹھا کر گامے کے سر میں دے ماراگامے کے سر سے خون کے فوارے چھوٹ پڑے ، خون دیکھ کر وہ شخص ڈر گیا اور تھر تھر کانپنے لگالیکن گاما چپ چاپ گھر چلا گیا ، اس شام گامے کے شاگردوں نے اس سے پوچھا، استاد وہ بد تمیز شخص آپ کے ایک تھپڑ کی مار تھا لیکن آپ اس کی گالیاں بھی سنتے رہے اور اس کی چوٹ بھی سہ لی، ہمیں آپ کی یہ حکمت سمجھ نہیں آئی ، گاما یہ سن کر بولا گالی ہمیشہ کمزور شخص دیتا ہے اور میں رستم زمان ہوں اورمیں ایک کمزور شخص سے لڑ پڑوں ، جب اس نے با ٹ مارا تو میرا دل بھی چاہا کہ اسے بیس گز دور پھینک دوں لیکن پھر میں نے سوچا ، گامے اگر تم اپنے غصے پر قابو نہیں پا سکتے تو پھر تمھیں رستم زمان کہلانے کا کوئی حق نہیں ، چنانچہ میں وہاں سے چپ چاپ نکل آیا۔یہ ہمارا عمومی معاشرتی رویہ ہے، ہم بہت جلد غصے میں آجاتے ہیں اور دوسروں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، آپ پاکستان کے کسی حصے میں چلے جائیں، آپ کو لوگ ایک دوسرے سے الجھتے نظر آئیں گے، آپ کو لوگ گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر ایک دوسرے سے دست و گریبان بھی دکھائی دیں گے اور آپ کسی محفل میں چلے جائیں، آپ کو وہاں بھی لوگ لوگوں کے بارے میں برے ریمارکس دیتے نظر آئیں گے،اور سیاست میں تو ہم عدم برداشت کی آخری سیڑھی پر ہیں یہاں تو ہم ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تل آتے ہیں اور رشتے ناطے توڑدیتے ہیں ، آپ کو فیس بک پر ہر تیسرے بندے کی وال پریہ لکھا ملے گا کہ اگر آپ فلاں پارٹی یا فلاں لیڈرکو لائک کرتے ہیں تو مجھے ان فرینڈ کردیں،  یہ ایسا کیوں ہے؟ اس کی واحد وجہ برداشت کی کمی ہے، ہمارا معاشرہ عدم برداشت کی انتہا کو چھو رہا ہے، ہم معمولی اور جائز بات بھی برداشت نہیں کرتے، ہم عدم برداشت کی وجوہات میں پڑنے کی بجائے اس کے حل کی طرف آتے ہیں کیونکہ ہزاروں لاکھوں لوگ عدم برداشت کی نشاندہی تو کرتے ہیں لیکن کوئی اس کا حل نہیں بتاتا۔ چنانچہ ہم حل کی طرف آتے ہیں۔ ہم اگر اپنی زندگی میں یہ کام کر لیں تو ہماری برداشت میں اضافہ ہو جائے گا، ہم دوسروں سے الجھنا اور دوسروں کو برا بھلا کہنا بند کر دیں گے،ایک۔  ہم اگر اپنی کمیونی کیشن سکل امپروو کر لیں، ہم اگر دوسروں سے مخاطب ہونے سے قبل پوری تیاری کر لیں تو ہماری برداشت میں اضافہ ہو جائے گا ،ہم میں سے زیادہ تر لوگ بولنے سے قبل یہ فیصلہ نہیں کرتے "ہم نے پوچھنا ہے یا بتانا ہے"۔ہم پوچھتے پوچھتے بتانا شروع کر دیتے ہیں اور بتاتے بتاتے پوچھنے لگتے ہیں اور کمیونی کیشن کا یہ کنفیوژن ہمیں بالآخر جھگڑے کی طرف لے جاتا ہے، آپ پوچھنا چاہتے ہیں تو صرف پوچھیں اور بتانا چاہتے ہیں تو صرف بتائیں، کمیونی کیشن میں سننے کے 80 نمبر ہوتے ہیں اور بولنے کے 20۔ آپ اگر اچھے سامع ہیں تو آپ کامیاب کمیونی کیٹر ہیں اور آپ اگر کانوں سے کم اور زبان سے زیادہ کام لیتے ہیں تو پھر آپ کی کمیونی کیشن ناقص ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو کان دو اور زبان ایک دے رکھی ہے، اس کا مطلب ہے آپ زبان کے مقابلے میں کانوں سے کم از کم دگنا کام لیں لیکن ہم کانوں کی بجائے زبان زیادہ استعمال کرتے ہیں اور یوں ہمارے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ،دنیا کی بڑی سے بڑی بات ایک منٹ میں مکمل ہو سکتی ہے اور آپ گیارہ لفظوں میں اپنا پورا مافی الضمیر بیان کر سکتے ہیں، آپ گیارہ لفظوں اور ایک منٹ کا استعمال سیکھ جائیں، آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا، دوم ۔آپ کو اگر کسی سے کوئی کام ہو تو آپ وہ کام کاغذ پر لکھ کر لے جائیں، آپ متعلقہ شخص کا ٹیلی فون نمبر، ایڈریس اور عہدہ بھی لکھ کر لے جائیں اور یہ کاغذ اس صاحب کے سامنے رکھ دیں جس سے آپ کام کروانا چاہتے ہیں، آپ کے کام کے امکانات نوے فیصد ہو جائیں گے۔موبائل پر جب بھی پیغام بھجوائیں، اپنا نام ضرور لکھیں، وائس میسج میں بھی اپنا نام ریکارڈ کروائیں کیونکہ بعض اوقات ریکارڈنگ میں خرابی کی وجہ سے دوسرا شخص آپ کی آواز شناخت نہیں کر پاتا اور موبائل سیٹ میں خرابی یا سیٹ تبدیل ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات دوسرے شخص کی کانٹیکٹ لسٹ کام نہیں کرتی اور یوں کمیونی کیشن گیپ پیدا ہو جاتا ہے ، تیسری ٹپ۔ مطالعے اور مشاہدے کے بغیر اچھی کمیونی کیشن ممکن نہیں، آپ کے پاس معلومات نہیں ہوں گی تو آپ کی گفتگو بے ہنگم لفظوں کے سوا کچھ نہیں ہو گی، آپ مطالعہ بڑھائیں آپ کی کمیونیکیشن اچھی ہو جائے گی، چوتھی ٹپ ۔ اللہ تعالی بھی اس دنیا میں ہر شخص کو سپیس دیتا ہے آپ بھی ہر شخص کو سپیس ضرور دیں ہر ایک کے نقطہ نظر کا احترام کریں اگر آپ احترام نہیں کریں گے تو آپ کے نقطہ نظرکا بھی احترام نہیں کیا جائے گا چہ جائیکہ آپ کا نقطہ نظرسو فیصد ٹھیک ہی کیوں نہ ہو، پانچ۔دنیا بھر کے سماجی، نفسیاتی اور دماغی ماہرین متفق ہیں جو انسان جسمانی مشقت نہیں کرتا اس کے جسم میں ایسے کیمیکل پیدا ہو جاتے ہیں جو اس میں ٹینشن، انیگزائیٹی اور ڈپریشن پیدا کر دیتے ہیں اور یہ تینوں بیماریاں آپ میں عدم برداشت کا باعث بنتی ہیں، دنیا میں سب سے کم لڑائیاں جم، سوئمنگ پولز اور کھیل کے میدانوں میں ہوتی ہیں، آپ اگر اپنی برداشت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ ایکسرسائز کو اپنا معمولی بنا لیں، آپ جم میں مسل ایکسرسائز کریں، وزن اٹھائیں، فٹ بال، ہاکی، اسکواش، بیڈمنٹن یا پھر ٹینس کھیلیں اور آپ واک کریں، سوئمنگ کریں۔ یوگا کریں اور بیڈ منٹن یا سکوائش کھیلیں، چائے خانوں، کافی شاپس یا پارکس میں بیٹھنا، سورج غروب ہوتے یا طلوع ہوتے دیکھنا، سمندر، دریا یا جھیل کے کنارے سیر کرنا بھی ایکسرسائز کا حصہ ہے، آپ مہینے میں ایک دو دن یہ بھی کریں، چھ۔ آپ روزانہ  گرین ٹی بھی پیئیں، یہ بھی برداشت میں اضافہ کرتی ہے، گوشت ہفتے میں ایک بار کھائیں، سبزیاں، دالیں  بھی آپ کا موڈ اچھا رکھتی ہیں،سات۔ ہمارے معاشرے میں پاگل پن بڑھتا جا رہا ہے چنانچہ آپ لوگوں سے جتنا کم ملیں گے آپ کا موڈ اتنا اچھا رہے گا، آپ کم سے کم لوگوں سے ملیں، کنجوس، دھوکے باز اور جھوٹے لوگوں سے پرہیز کریں، یہ لوگ اگر دکاندار ہیں تو آپ ان سے سودا نہ خریدیں کیونکہ یہ آپ کا موڈ خراب کر دیں گے،آٹھ۔ آپ کے دوست بہت محدود ہونے چاہئیں اور یہ دوست بھی خوش اخلاق اور قہقہے باز ہوں تو اللہ کا شکر ادا کریں کیونکہ ہمارے دوست بھی اکثر اوقات ہمارے چڑچڑے پن کی وجہ ہوتے ہیں، نو۔ کوئی نہ کوئی نئی سکل ضرور سیکھیں ، سیکھنے کے بعد دوسروں کو سکھانا شروع کردیں آپ کے پاس دوسروں کے ساتھ جھگڑنے کا ٹائم ہی نہیں بچے گا،دس۔ ہم میں سے نوے فی صد لوگ عدم تحفظ کا بھی شکار ہیں ، کل کیا ہوگا؟  مجھے نوکری ملے گی؟ میرے نمبر اچھے نہ آئے تو کیا ہوگا؟ چھت نہ گر جائے؟تربوزکھا کر لسی پی لی مجھے کہیں ہیضہ نہ ہوجائے؟ یہ سارے شک اور اعتراضات عدم تحفظ کا ثبوت ہیں ، ہم جب عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں تو چڑچڑے بن جاتے ہیں اور یہ چڑچڑا پن ہماری برداشت کو کھا جاتا ہے ، عدم تحفظ سے نکلنے کے لیے اللہ پر ایمان پختہ کر لیں ، یہ بات پلے باندھ لیں کہ دنیا میں ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی انسان کے لیے برا نہیں کرتا، آپ اندیشوں سے نکل آئیں گےیوں آپ کی برداشت میں اضافہ ہو جائے گا، ان عادات کو اپنا لیں آپ کی زندگی خوبصورت ہو جائے گی،  آپ عدم برداشت کے ساتھ زندگینہیں گزار سکتے۔