ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی ہندیرے 

2018ء میں ہندوستان کے مشہور فلم ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی نے پدوماتی نام سے ایک فلم بنائی یہ فلم مسلم حکمران علاؤ الدین خلجی کے راجستھان کے قلعہ چتوڑ پر حملے سے متعلق تھی جس میں علاؤ الدین خلجی کو ایک وحشی اور ظالم جابر حکمران کے طور پر پیش کیا گیاکہ اس نے راجہ رتن کی دوسری رانی پدوماتی کی خوب صورتی کا سن کر اس کو پانے کے لیے یہ حملہ کیا ہے 

اس فلم کے خلاف بھارت میں پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے ہندو انتہا پسندوں کے مطابق یہ رانی کی توہین کی گئی ہے اور ہم اپنی رانیوں کی توہین برداشت نہیں کرتے۔جبکہ حقیقت کے طور پر دیکھا جائے توعلاؤالدین خلجی کا یہ حملہ صرف میواڑ کو دہلی سلطنت کا باج گزار بنانے کے لیے تھا نہ کہ کسی رانی کو پانے کے لیے تھا اور کسی ہم عصر مورخ نے بھی کبھی یہ بیان نہیں کیا۔چتوڑ کی اس مہم میں مشہور شاعر اور موسیقار امیر خسرو بھی علاؤالدین خلجی کے ساتھ شریک تھا اس نے اپنی تصنیف خزائن الفتح میں اس مہم کا احوال تو درج کیا لیکن کہیں بھی چتوڑ پر حملے کی وجہ کسی رانی کو قرار نہیں دیا بلکہ کسی رانی تک کا ذکر بھی نہیں کیا۔ہندوستان کا جس قدر علاقہ اس کے زیرنگیں تھا برطانوی حکومت سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوا علاؤالدین خلجی کے دور میں منگولوں کا خوف پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوا تھا لیکن یہ علاؤالدین خلجی کا زور بازو اور حسن تدبر تھا کہ اس نے پورے ہندوستان بشمول ہمارا علاقہ ڈیرہ اسماعیل خان کو منگولوں کے حملوں سے بچائے رکھا۔

ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروآ سے 12کلومیٹر جنوب کی طرف ہندیرے کے مقبرے واقع ہیں۔ علاؤالدین خلجی کے زمانے میں تاتاریوں نے ہندوستان پر سلسلہ وار حملے کیے تاتاری حملوں کی شدت سے بچنے کے لیے خلجی نے پنجاب اور سرائیکی وسیب میں کچھ قلعے تعمیر کیے لیکن 1307ء میں منگولوں نے ہندوستان پر دھاوا بول دیا خلجی فوج نے دریائے سندھ کے مغربی کنارے ان حملوں کو روکا اور عین اسی مقام پر گھمسان کی جنگ پڑی جس کے نتیجے میں منگولوں کے سربراہ اقبال مند کو گرفتار کرکے دہلی لے جایا گیا جبکہ مرنے والے خلجی سپہ سالاروں اور سپاہیوں کو یہاں دفن کر دیا گیا عام سپاہیوں کی قبریں بنائی گئیں اور سپہ سالاروں کی قبروں پر گنبد نما مقبرے تعمیر کیے گئے یہ مقبرے ہشت پہلو یعنی آٹھ کونے والے ہیں اور یہ جنوبی ایشیا کے پہلے ہشت پہلو مقبرے تصور کیے جاتے ہیں بعد میں شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی اور شاہ رکن عالم کے مقبرے بھی اسی طرز سے تعمیر کیے گئے۔

برصغیر کے اولین ہشت پہلو مقبرے (ہندیرے) اپنے مخصوص فن تعمیر اور تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں،ہندیر سرائیکی زبان میں باقی رہ جانے والی، بچ جانے والی چیز کو کہا جاتا ہے،  1883-1884میں لکھے گئے گزیٹر آف ڈیرہ اسماعیل خان ڈسٹرکٹ کے صفحہ 22پر بھی یہی لفظ ہندیرے لکھا گیا ہے۔

 ہندیرے کے آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کل گیارہ مقبرے ہیں جن میں صرف چار باقی بچے ہیں ہر مقبرے کے اندر کئی قبریں ہیں جیسا کہ مقبرہ نمبر 1میں بارہ، مقبرہ نمبر2میں پانچ، مقبرہ نمبر 3میں آٹھ اور مقبرہ بؤنمبر 4میں دس قبریں ہیں۔ ہندیرے کے قبرستان میں سارے مقبرے پختہ اینٹوں سے بنائے گئے ہیں جن کی شفاف سطح پر سبز اور نیلا روغن ابھی تک موجود ہے نہایت آرٹسٹک انداز میں کسی ماہر کوزہ گر کے ہاتھوں سے بنائے یہ مقبرے آج بھی ایک ہزار سال گزرنے کے بعد بھی ایستادہ ہیں۔تاریخی لحاظ سے زیاہ تر مقبرے چوکور شکل میں تخلیق کیے گئے ہیں بعض ہشت پہلو بھی ہیں ہر مقبرے کے مشرق میں بڑا اور شمالا جنوبا چھوٹے دروازے رکھے گئے ہیں، مقبروں کے اندر مغربی جانب محراب بنائے گئے ہیں جس کا جھکاؤ قبلے کی جانب ہے، مقبروں کے اندر لگی بعض اینٹوں پر کچھ ایسے نقوش بھی کندہ ہیں جن پر کسی تحریر کا گمان ہوتا ہے یہاں سے قرآنی آیات والی ایک اینٹ بھی برآمد ہوئی تھی جسے پشاور میوزیم میں محفوظ کر دیا گیا ہے 

دامان کی چمکتی ریت اور خشک بیابان ویرانوں میں سر اٹھائے کھڑے یہ مقبرے انسان کو اس فانی دنیا کے بارے میں بتار ہے ہیں کہ کبھی وہ لوگ بھی اپنے آپ کو اس دنیا کے لیے بہت ضروری سمجھتے ہوں گے جو یہاں مدفون ہیں یہ مقبرے تاریخ کو نوحہ بیان کر رہے ہیں۔آج بھی امریکن، برٹش یونیورسٹیوں کی لائبریریاں اس خطے کے لٹریچر اور ریسرچ سے بھری پڑی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی بڑی تہذیب کے مقابلے میں اس خطے کی تہذیب بڑی اہم او زور آور تھی لیکن افسوس کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں جو ان تاریخی ورثوں کی حفاظت کر سکے محکمہ آثار قدیمہ نے ہندیرے کی طرف جانے والے راستے پر تین بورڈ تو لگا دیے لیکن راستہ انتہائی دشوار گزار اور سفر انتہائی کٹھن ہے،اگر ان تاریخی اور سیاحتی علاقے کو مقامی حکومت کی تھوڑی سی توجہ مل جائے تونہ صرف یہ تاریخی آثارتاریخ کے طلبا ء، ایجکیشنل ٹور کے طلباء اورسیاحوں کے لیے دلچسی کا باعث بنتے بلکہ ہم زرمبادلہ بھی کماتے۔ زرمبالہ کمانے کے ساتھ یہ ٹاریخی آثار تعلیمی ماحول اورطلباء کی ذہنی وسعت بھی بڑھاتے۔میں مقامی حکومتوں کے نئے جوش اور ولولے سے آنے والے نئے نوجوان لیڈروں سے یہ درخواست کروں گا کہ اپنے علاقے کی اس تاریخی جگہ تک جانے کا راستہ اور وہاں پرٹورسٹ کو کچھ سہولیات دے دیں تو یہ اپنی مٹی سے قرض چکانے کی ذمہ داری آپ نے نبھا لی۔