وال سٹریٹ
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
1640ء
تک نیویارک پانچ حصوں میں تقسیم تھا شمالی حصے پر بالینڈ کا قبضہ تھا ،اس دور میں
انگلینڈ سے فوج آئی اور اس نے ہالینڈ کے قابضین سے لڑنا شروع کر دیا ،برطانوی فوج
اسلحے اور تعداد میں ڈچ لوگوں سے بڑی تھی ،چنانچہ ڈچ جاگیر دار خوف کا شکار ہوگئے
ان لوگوں نے اپنے بچاؤ کیلئے شمالی نیو یارک میں ایک دیوار بنائی اور اس دیوار کے
پیچھے پناہ گزین ہو گئے ۔ یہ دیوار 1652ء میں مکمل ہوئی اور یہ 1699ء تک برقرار
رہی 1698ء میں انگلینڈ کی فوج نے شمالی نیو یارک پر قبضہ کر لیا اور ڈچ سرداروں کو
وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد یہ دیوار گرا دی گئی ۔ڈچوں کے دور میں
اس دیوار کے ساتھ ایک نسبتا چوڑی گلی ہوتی تھی لوگ اس گلی کو "وال سٹریٹ‘‘
کہتے تھے یہ دیوار 1699ء میں ختم ہو گئی لیکن وال سٹریٹ آج تک قائم ہے ۔ وال سٹریٹ
آج دنیا کی سب سے بڑی سٹاک ایکسچینج مارکیٹ ہے۔ انیسویں صدی کے شروع میں جب نیو
یارک میں بلند عمارتوں کی تعمیر شروع ہوئی تو دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں نے آسمان
کو ہاتھ لگانے کیلئے اسی جگہ کا انتخاب کیا تھا ،یہ جگہ اس وقت دنیا کا معاشی
دارالحکومت بھی کہلاتی ہے ،اِس وقت وال سٹریٹ میں دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں اور
تمام بڑے سرمایہ کاروں کے دفاتر موجود ہیں ۔کہا جاتا ہے دنیا میں سرمائے کا سورج
روزانہ وال سٹریٹ سے طلوع ہوتا ہے اور جس دن یہ سورج طلوع نہیں ہو گا اس دن دنیاو
یوالیہ ہو جائے گی ۔ وال سٹریٹ میں اس وقت دنیا کے 21 ٹریلین ڈالر دفن ہیں آپ کو
شاید یہ جان کر حیرت ہو اس وقت دنیا کی کل دولت 33 ٹریلین ڈالر ہے اور ان 33
ٹریلین ڈالرز میں سے 21 ٹریلین ڈالر اس وقت وال سٹریٹ میں ہیں جبکہ باقی 12 ٹریلین
ڈالرز سے د نیا اپنا کاروبار حیات چلارہی ہے۔ اگر ہم وال سٹریٹ کی کمپنیوں اور ان
کمپنیوں کے ساتھ وابستہ لوگوں کا جائزہ لیں تو یہ دنیا کے امیر اور خوشحال ترین
لوگ ہیں ان میں سے ہر شخص اور ہر کمپنی کا کاروبار سو سے زائد ممالک تک پھیلا ہوا
ہے اور یہ لوگ ہر گزرنے والے سیکنڈ میں امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں ، ایک بار
وال سٹریٹ کے ایک کھلاڑی کا انٹرویو ہوا انٹرویو کرنے والے نے اس سے سوال کیا اس
وقت آپ کے اکاؤنٹس میں کتنی رقم ہے“ اس نے مسکرا کر جواب دیا آپ کے سوال کرنے سے
پہلے میرے پاس بار ہ بلین اور نو سو دس
ملین ڈالر تھے لیکن میرے جواب دینے کے بعد اس رقم میں تین ملین کا اضافہ ہو جائے
گا ،یہ لوگ زندگی کو اس طرح دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ٹائم از منی“ (وقت دولت ہے) کے
محاورے نے بھی اسی گلی میں جنم لیا تھا، وال سٹریٹ میں حقیقتاہر سیکنڈ سونے کے
بھاؤ تولہ اور پٹرول کی قیمت میں بیچا
جاتا ہے لہذا بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے وال سٹریٹ کے لوگوں تک زندگی کی گرم ہوا بھی
نہیں پہنچتی یہ لوگ ان تمام تکلیفوں اور
مسائل سے آزاد ہوتے ہیں جن سے اس دنیا کے سات ارب لوگوں کا روزانہ پالا پڑتا ہے۔
یہ لوگ حقیقتا خوش اور خوشحال ہیں اور
انہوں نے زندگی میں کبھی ان تلخ حقائق کی کڑواہٹ محسوس نہیں کی جو روزانہ ہمارے
حلق کو زہر بناتے ہیں لیکن چند روز پہلے مجھے وال سٹریٹ میں ہو نے والے ایک سروے
کی رپورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا اس رپورٹ نے مجھے حیران کر دیا امریکہ کی ایک کمپنی
نے وال سٹریٹ کے باسیوں سے پوچھا تم لوگوں نے خوشی کو کیسے محسوس کیا (یہ نہیں
پوچھا کہ کبھی خوشی کو محسوس کیا) ان تاجروں، کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز اور
بروکروں کا جواب بہت دلچسپ تھا ،ان میں سے 91 فیصد لوگوں کا کہنا تھا انہوں نے
زندگی میں کبھی خوشی کو محسوس ہی نہیں کیا
،انہیں سرے سے یہ معلوم نہیں خوشی کیا ہوتی ہے ،اور اس کا اظہار کس طرح کیا جاتا
ہے۔ کمپنی نے مزید تحقیق کی تو پتہ چلاوال سٹریٹ کے زیادہ تر لوگ مسکرانا قہقہہ
لگانا اور ہنسنا بھول چکے ہیں اور اس بازار میں اگر کبھی کسی کے منہ سے قہقہہ نکل
جائے تو سب لوگ مڑ کر حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہیں میرے لئے یہ تحقیق حیران کن
تھی ،ہم بے شمار دوسرے لوگوں کی طرح دولت
اور خوشحالی کو خوشی کا جوہرسمجھتےہیں ،ہمارا خیال ہے جب تک کسی شخص کی جیب میں ایک دو کروڑ روپے نہ
ہوں اس وقت تک اسے خوشی نصیب نہیں ہوتی وہ اس وقت تک خوشی کو پوری طرح محسوس نہیں
کر تالیکن وال سٹریٹ کے اس سروے نے اس سارے فلسفے کو جڑوں سے ہلا دیا اور مجھے
پہلی بار محسوس ہوا خوشی دولت اور خوشحالی سے ماوراکوئی چیز ہوتی ہے اور اس کا
تعلق جذبوں کے کسی دوسرے ماخذ سے ہوتا ہے مجھے معلوم ہوا ایک چھوٹا بچہ روزانہ چار
سو بار ہنستا ہے جبکہ ایک نارمل بالغ شخص کے چہرے پر صرف پندرہ مرتبہ مسکراہٹ آتی
ہے اور جوں جوں یہ بالغ شخص خوشحالی کی تلاش میں آگے بڑھتا جاتا ہے اس کے چہرے سے ہنسی
اور خوشی غائب ہوتی جاتی ہے مجھے معلوم ہوا دولت دنیا میں بے شمار خوبیاں لے کر
آتی ہے ۔ یہ انسان کو بے شمار تحفے اور انعامات بھی دیتی ہے لیکن یہ اپنے ساتھ
خوشی اور مسرت نہیں لے کر آتی۔ پھر خوشی کیا ہوتی ہے؟”دنیا میں لوگ دولت دے کر
کوئی نہ کوئی جنس خریدتے ہیں آپ روپے دے کر آٹا، دالیں ، چینی ، جوتے اور کپڑے لیتے ہیں ہم اس
خرید و فروخت کو کاروبار کہتے ہیں انسان جب جنس کے بدلے روپیہ اور روپے کے بدلے
جنس لیتا ہے تو اسے خوشی حاصل نہیں ہوتی، خوشی صرف اس خرید و فروخت میں حاصل ہوتی
ہے جس میں آپ روپے ادا کرتے ہیں لیکن آپ اس کے بدلے میں کو ئی جنس نہیں لیتے، آپ
کو اس کے عوض کوئی چیز نہیں ملتی، بعض اوقات تو آپ روپے بھی ادا نہیں کرتے “مثلا
آپ کسی ضرورت مند طالب علم کی فیس ادا کر دیتے ہیں، کسی مریض کا علاج کرادیتے ہیں
یا آپ کسی یتیم کو جو تاخرید کردیتے ہیں، یا کسی کو صحیح راستہ دکھا دیتے ہیں ، یا
کسی کو گائیڈ لائن دے دیتے ہیں ، یا کسی ناامید کو امید دے دیتے ہیں ، یا کسی کے
کندھے پر تھپکی دے دیتے ہیں۔”خوشی صرف خوش نصیب لوگوں کو ملتی ہے اور خوش نصیب وہ
ہوتے ہیں جو اپنے نصیب پر خوش ہوتے ہیں، جو اللہ کی رضا کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں
لیکن بچوں کو تو نصیب کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی خوشی کا وہ پھر روزانہ چار چار سو
بار کیوں مسکراتے ہیں تویاد رکھیں خوشی کیلئے معصوم ہونا بھی ضروری ہے اور ہم
زندگی میں جس قدر آگے بڑھتے ہیں ہم اتنے ہی معصومیت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں ، ہم
جوں جوں چالاک، ہوشیار اور سمجھ دار ہوتے جاتے ہیں، ہم توں توں خوشی سے دور ہوتے
جاتے ہیں ، ہم توں توں مسرت سے خالی ہوتے جاتے ہیں۔ خوشی کیلئے توکل اور معصومیت
دونوں ضروری ہوتی ہیں اور قدرت سرمائے دار کو سرمایہ دے کر یہ دونوں انعام چھین
لیتی ہے وہ اسے چالاک اور پر یکٹیکل بنادیتی ہے اور پر یکٹیکل اور چالاک لوگ کبھی
خوش نہیں رہ سکتے۔آپ بھی چالاکی چھوڑیں
اور اپنے اندر توکل اور معصومیت پیدا کر لیں آپ بھی خوش رہیں گے۔

0 Comments