Negotiator


ایک گاؤں میں تین با اثر خاندان تھے، تیسرے خاندان کا بزرگ گاؤں کا چوہدری تھا، یہ پورے گاؤں کے فیصلے کرتا تھا، گاؤں کے دو خاندان معاشی دوڑ میں آگے نکل گئے، ان کے بچے ملک سے باہر گئے، وہاں سے پاؤنڈ، ڈالر اور ریال کمائے، یہ دولت گاؤں میں آئی، پکے گھر بنے، ٹیوب ویل لگے، کھیت آباد ہوئے، گاڑیاں آ گئیں، جب کہ چوہدری خاندان ان کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے پیچھے رہ گیا، یہ زمین جائیداد، اثر و رسوخ اور افرادی قوت میں دونوں خاندان سے آگے تھا مگر روپے پیسے میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا، چوہدری خاندان اس صورتحال سے خائف تھا، خاندان یہ سمجھتا تھا اگر ان دونوں کا اثر نہ ٹوٹا تو یہ دونوں ان کے خاندان کو تباہ کر دیں گے چنانچہ یہ ان خاندانوں کو کمزور کر نے کی پلاننگ کرتا رہتا تھا.
قدرت نے ایک دن انھیں سنہری موقع دے دیا، معاشی لحاظ سے مضبوط خاندانوں کے درمیان زمین پر جھگڑا ہوا، یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو گئے، یہ معاملہ پنچایت میں آیا اور پنچایت کے سربراہ تیسرے خاندان کے بزرگ چوہدری صاحب تھے، چوہدری صاحب نے اس تنازعے کا عجیب حل نکالا، انھوں نے فرمایا "آپ دونوں خاندان پیسے، رتبے اور اثر و رسوخ میں برابر ہو چکے ہیں، آپ جب تک ایک دوسرے کے رشتے دار نہیں بنیں گے، آپ اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہیں گے، آج زمین کا مسئلہ ہو گیا، کل جانوروں کا ایشو بن جائے گا اور پرسوں پانی کا تنازعہ پیدا جائے گا، آپ لڑتے رہیں گے اور یوں پورے گاؤں کا ماحول خراب ہو جائے گا" چوہدری صاحب نے فرمایا "میرا فیصلہ ہے، آپ ایک دوسرے کے رشتے دار بنیں تا کہ مسائل پیدا نہ ہوں " یہ ایک زبردست تجویز تھی، پورے گاؤں نے تجویز سے اتفاق کیا، پنچایت میں بیٹھے بیٹھے ایک فریق کی بیٹی کا رشتہ دوسرے فریق کے بیٹے سے کر دیا گیا، مٹھائی منگوائی گئی، منہ میٹھا ہوا، ڈھولچی کو بلوا کر ڈھول بجایا گیا، فریقین نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے، چوہدری صاحب کا بیٹا پنچایت میں موجود تھا، وہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، لوگ گھروں کو چلے گئے تو وہ غصے سے اٹھا اور باپ سے کہا " ابا جی یہ آپ نے کیا کیا، یہ اکیلے بھی ہم پر بھاری تھے لیکن آپ نے دونوں کو متحد کر دیا، یہ دونوں مل کر اب ہمیں گاؤں میں نہیں رہنے دیں گے" باپ نے بیٹے کو چارپائی پر ساتھ بٹھایا اور نرم آواز میں بولا " بیٹا میں نے آج ان لوگوں کا مستقل بندوبست کر دیا ہے، آپ لوگ لسی پی کر سو جاؤ، یہ اب تمہیں کبھی تنگ نہیں کریں گے" بیٹے نے باپ کی طرف غور سے دیکھا اور پوچھا "وہ کیسے؟ " باپ نے جواب دیا " میرے بچے میں نے ایک بے جوڑ رشتے کی بنیاد رکھ دی ہے، لڑکی ایم اے کر رہی ہے جب کہ لڑکا ان پڑھ، گنوار اور لڑاکا ہے، یہ شادی نبھ نہیں سکے گی، طلاق ہو جائے گی اور اس کے بعد ان کے درمیان ایک لمبی جنگ چھڑ جائے گی، یہ زندگی بھر ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے اور یوں ہم دو تین نسلوں تک گاؤں کے چوہدری رہیں گے" بیٹے نے قہقہہ لگایا اور باپ کے گھٹنے پکڑ لیے۔
سٹیفن جان سٹیڈمین کی نظر میں چوہدری جیسے لوگ لمیٹڈ سپائلر ہیں، سٹیڈمین کا خیال ہے، یہ لوگ اپنی اہمیت، اپنی شناخت اور اپنے نام کے بھوکے ہوتے ہیں، یہ اپنی اہمیت کو زندہ رکھنے کے لیے تنازعات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچنے دیتے، یہ لوگ مذاکرات کو ایک ایسا ٹوئسٹ دے دیتے ہیں کہ فریقین سمجھنے لگتے ہیں، ہم نے مسئلہ حل کر لیا، لیکن اس حل نے ایک دائمی تنازعہ پیدا کر دیا ہوتا ہے۔
سٹیڈمین امریکی ہیں، یہ تنازعوں اور مذاکرات کی دنیا کے سب سے بڑے ایکسپرٹ ہیں، یہ 2005ء میں اقوام متحدہ کے نائب سیکریٹری جنرل اور سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے خصوصی مشیر بھی رہے۔ سٹیڈمین نے دنیا کے دو سو سال کے بڑے تنازعوں کا تجزیہ اور مطالعہ کیا اور 1997ء میں مذاکرات کی سپائلر تھیوری دی، یہ تھیوری دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہارورڈ نے شایع کی، یہ مذاکرات اور قیام امن پراسیس پر اب تک دنیا کی سب سے اچھی دستاویز ہے اور ایک نئے کیرئیر کی بنیاد رکھ دی۔

یہ کیرئیر کیا ہے؟

یہ شعبہ ان افراد کے لیے ہے جو دوسروں کے درمیان اختلافات کو سلجھانے، امن قائم کرنے، اور پیچیدہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کیرئیر سیاست، قانون، بزنس، انسانی حقوق، اور بین الاقوامی تعلقات جیسے شعبوں میں بہت اہم ہے۔

اس کے لیے کون سی ڈگریز ضروری ہیں؟

BA/BS in Political Science, Sociology, Law, or Psychology
ابتدائی سطح پر بنیادی سمجھ بوجھ پیدا کرتی ہے

Master’s in Conflict Resolution or Negotiation
پیشہ ورانہ مہارت، تکنیکیں، اور عملی تربیت فراہم کرتی ہے۔

# اس کیرئیر سے متعلقہ فیلڈز
عدلیہ / قانون
ثالث، وکیل، فیملی لا فسیلیٹیٹر
این جی اوز / انسانی حقوق
وکٹم ایڈووکیٹ، کمیونٹی میڈی ایٹر
کارپوریٹ سیکٹر
پاکستان میں NGOs، عدالتیں، HR ڈیپارٹمنٹس، اور بین الاقوامی تنظیمیں ایسے ماہرین کی تلاش میں رہتی ہیں جو تنازعات کو سلجھا سکیں۔ خاص طور پر خواتین کے لیے یہ شعبہ بہت مؤثر ہو سکتا ہے