Railway engneering



"انگریزوں نے مئی 1861ء میں اس خطے میں ریل کی پٹڑی بچھائی اور کمال کر دیا، 1947ء کو ریلوے دو حصوں میں تقسیم ہوا، 55 ہزار کلومیٹر پٹڑی انڈیا کے پاس رہ گئی اور آٹھ ہزار کلومیٹر پاکستان کے حصے آ گیا.

انڈیا نے اسے ایک لاکھ چودہ ہزار کلومیٹر تک پہنچا دیا جب کہ ہم اسے بمشکل 11 ہزار کلومیٹر تک پہنچا سکے، انڈیا میں آج روزانہ 14 ہزار ٹرینیں چلتی ہیں جب کہ ہماری ٹرینیں سو سے کم ہو چکی ہیں، بھارت میں روزانہ 3 کروڑ لوگ ٹرینوں پر سفر کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں ان کی تعداد 60 ہزار ہے، بھارت میں روزانہ 3 ملین ٹن سامان مال گاڑی کے ذریعے دوسرے شہروں تک پہنچایا جاتا ہے، پاکستان میں اس کا وزن صفر ہو چکا ہے،  چنانچہ ہمارا ریلوے آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کو بچانے کا اب واحد طریقہ یہ ہے پڑھے لکھے مکینیکل انجنئیرز اس شعبے کو سنبھال لیں تو اللہ تعالیٰ کرم کرے گا اور ہماری ٹرینیں ٹریک پر آ جائیں گی۔"
لیکن ہمارے انجنئیرز باہر کے ممالک کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ بھاری معاوضہ پر ان کو وہاں پر بھرتی کیا جاتا ہے۔
ریلوے انجینئرنگ کی ڈگری کا دائرہ کار وسیع ہے اور مختلف شعبوں میں اس کا سکوپ ہے۔

1. ڈیزائن اور تعمیری انجینئرنگ: ریلوے کی ڈیزائننگ، پلوں کی تعمیر، اور انفراسٹرکچر کی ترقی۔
2. آپریشنز اور مینٹیننس: ریلوے سسٹم کی دیکھ بھال اور روزمرہ کے آپریشنز۔
3. سگنلنگ اور کنٹرول: ریلوے سگنلز، سیفٹی سسٹمز، اور کنٹرول سسٹمز کی ترقی اور دیکھ بھال۔
4. ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ: نئے ریلوے ٹیکنالوجیز اور جدتوں کی تحقیق۔
5. کنسلٹیشن اور پروجیکٹ مینجمنٹ: ریلوے پروجیکٹس کی منصوبہ بندی، منیجمنٹ اور کنسلٹنگ۔

اس کے علاوہ، ریلوے انجینئرز مختلف سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں بھی کام کرسکتے ہیں، جیسے ریلوے کمپنیاں، انجینئرنگ کنسلٹنسیز، اور تعمیراتی کمپنیاں۔

یہ ایک خاص شعبہ ہے جو مستقبل میں ترقی کے بے پناہ مواقع فراہم کرتا ہے۔