آج کاپڑھا لکھا نوجوان
تحریر : ایچ – ایم - زکریا
ا میر تیمور 1398ء میں مارتا دھاڑتا ہوا ہندوستان پہنچا، دہلی اس
کا ٹارگٹ تھا، وہ دہلی پہنچا تو ہندوستان نے اسے حیران کر دیا، دہلی کے مضافات میں
دو دفاعی قلعے تھے، لونی اور جومبہ، یہ دونوں دہلی کے تخت کے محافظ تھے، جومبہ سنسکرت زبان میں سانپ کو کہتے ہیں، امیر
تیمور جومبہ پہنچا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، قلعے میں خواتین کے سوا کوئی
نہیں تھا، یہ خواتین قلعے کی فصیل پر نہتی کھڑی تھیں، تیمور کا لشکر بھی انھیں
دیکھ کر پریشان ہو گیا، یہ پریشانی شام تک جاری رہی، تیمور کو شام کے وقت معلوم
ہوا، جومبہ کے قلعے کی دو دیواریں ہیں، دیواروں کے درمیان خندق ہے اور اس خندق میں
لاکھوں کوبرا سانپ ہیں۔ یہ سانپ جومبہ اور دہلی کے اصل محافظ تھے، یہ کوبرا سانپ قلعے کی
فصیل پر کھڑی خواتین نے پالے تھے، یہ سپیرنیاں تھیں اور سانپ ان کے غلام تھے،
تیمور کا کوئی سپاہی جب بھی خندق میں پاؤں رکھتا تھا تو فصیل پر کھڑی عورتیں منہ
سے ایک عجیب سی آواز نکالتی تھیں اور سیکڑوں سانپ اس سپاہی سے لپٹ جاتے تھے اور وہ
شخص چند منٹوں میں زمین پر ڈھیر ہو جاتا تھا، تیمور کو رات کے وقت ایک اور خوفناک
تجربہ بھی ہوا، دہلی کے ہزاروں سانپ اس کی چھاؤنی میں داخل ہو گئے اور اس کے
گھوڑوں اور سپاہیوں کی جان لے لی، جس سے امیر تیمور کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ دہلی کے مضافات میں
لاکھوں کروڑوں کوبرا سانپ تھے، ہندو سانپ کو دیوتا مانتے ہیں۔ یہ سانپ کو مارتے
نہیں تھے چنانچہ دہلی کے مضافات سانپ گھر بن چکے تھے، یہ سانپ تخت کے محافظ تھے،
یہ حملہ آوروں کی فوج کو ڈس لیتے تھے، یہ سانپ تیمور کے لیے مسئلہ بنے اور جب
1857ء کی جنگ کے بعد انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کیا تو یہ ان کے لیے بھی چیلنج بن
گئے، انگریز سپاہی روز دہلی میں کسی نہ کسی کوبرے کا نشانہ بن جاتے تھے،انگریز
دہلی کے سانپوں سے عاجز آ گئے لہٰذا انھوں نے ان سے نبٹنے کے لیے ایک دلچسپ اسکیم
بنائی۔ انھوں نے دہلی کے
مضافات میں"سانپ ماریں اور انعام پائیں" کا اعلان کر دیا، انگریز اسسٹنٹ
کمشنر سانپ مارنے والوں کو نقد انعام دیتے تھے، یہ انعام چند دنوں میں تجارت بن
گیا، دہلی کے لوگ کوبرا مارتے، اس کی لاش ڈنڈے پر لٹکاتے اور اے سی کے دفتر کے
سامنے کھڑے ہو جاتے اور اے سی کا اردلی سانپ گن کر انھیں انعام کی رقم دے دیتا، یہ
سلسلہ چل پڑا، سیکڑوں لوگ اس کاروبار سے وابستہ ہو گئے، دہلی میں سانپ کم ہونے لگے
یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آ گیا جب سانپ کے شکاری سارا دن مارے مارے پھرتے لیکن
کوئی سانپ ان کے ہتھے نہیں چڑھتا تھا، اس صورتحال نے ان لوگوں کو پریشان کر دیا،
کیوں؟ کیونکہ سانپ کشی ان کا روزگار بن چکا تھا، ان لوگوں کو سانپ پکڑنے کے سوا
کچھ نہیں آتا تھا اور دہلی میں سانپ ختم ہوتے جا رہے تھے، ان لوگوں نے اس کا ایک
دلچسپ حل نکالا، سپیروں نے گھروں میں سانپ پالنے شروع کر دیے۔ یہ گھروں میں سانپ
پالتے، یہ سانپ جب "سرکاری سائز" کے برابر ہو جاتے تو یہ روز ایک سانپ
مارتے، اس کی لاش لے کر اے سی کے دفتر پہنچتے اور انعام لے کر گھر واپس آ جاتے،
سپیروں کا روزگار ایک بار پھر چل پڑا مگر یہ راز زیادہ دنوں تک راز نہ رہ سکا،
انگریزوں کو اس کاروبار کی اطلاع مل گئی، وائسرائے نے میٹنگ بلائی اور اس میٹنگ
میں سپیروں کو انعام دینے کی اسکیم ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا، انگریز سرکار نے
ہرکاروں کے ذریعے دہلی کے مضافات میں منادی کرا دی "کل سے سانپ مارنے والے
کسی شخص کو انعام نہیں ملے گا" یہ اعلان سانپ پکڑنے اور مارنے والوں کے سر پر
چٹان بن کر گرا اور وہ لوگ مایوس ہو گئے، اس وقت ان لوگوں کے قبضے میں لاکھوں سانپ
تھے۔ ان لوگوں نے وہ تمام
سانپ مایوسی کے عالم میں کھلے چھوڑ دیے، وہ سانپ دہلی اور اس کے مضافات میں پھیل
گئے، یہ سانپوں کی نسل کشی کے دن تھے، سانپوں نے انڈے بچے دیے اور یوں دہلی میں
انسان کم اور سانپ زیادہ ہو گئے، انگریزوں نے تحقیق کی، پتہ چلا یہ سانپ انعامی
اسکیم سے پہلے کے سانپوں سے دس گنا زیادہ ہیں، اس صورتحال سے ایک اصطلاح نے جنم
لیا، وہ اصطلاح تھی "کوبرا ایفیکٹ" آج بھی جب کسی برائی کو مارنے کی
کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کے نتیجے میں وہ برائی دوگنی ہو جاتی ہے تو اسے
"کوبرا ایفیکٹ" کہا جاتا ہے۔
ہم اگر آج اپنے نوجوانوں کو دیکھیں تو ہمارے نوجوان بھی بری طرح
کوبرا ایفکٹ کا شکار ہیں پہلی برائی تو یہ ہے کہ انہیں علم نہیں ہوتا کہ ہم نے
زندگی میں کرنا کیا ہے؟ ہمارا ٹیلنٹ کیا ہے؟ اگرٹیلنٹ ڈسکور کر لیا تو پھردوسری
برائی یہ ہے کہ ٹیلنٹ معلوم ہونے کے باوجودیہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کس فیلڈ میں
جائیں ، آج کے نوجوان میں کنفیوژن ہی
کنفیوژن ہے کبھی میڈیکل میں داخلہ لینے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو کبھی آئی ٹی کی
طرف جانا چاہتے ہیں ، زیادہ تعداد کچھ نہ ہونے کی بنا پر ٹیچنگ کو اختیار کر لیتے ہیں جبکہ یہ
ان کا پیشن ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا ٹیلنٹ ۔ بس وقت گزاری کےلیے اس فیلڈ میں آگئے
اور اس فیلڈ میں پھر تباہی ہی مچادی ۔ اگر ہمارے نوجوان اس کوبرا ایفکٹ سے باہر
آئیں اور اپنا ٹیلنٹ ڈسکور کریں تو ان کو صحیح سمت بھی مل جائے گی اور یہ کامیاب
بھی ہوں گے ۔ اللہ نے انسانوں کی 16 ٹائپس بنائیں ہیں اور ہم کس ٹائپ میں آتے ہیں
یہ ایک اہم سوال ہے جس کی طرف نہ اساتذہ توجہ دے رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے نصاب میں
کچھ ایسا شامل ہے جس کی بنا پر ہمارا نوجوان کنفیوژ ہے ۔اگر آپ سٹوڈنٹ ہیں یا اپنی
تعلیم مکمل کر چکے ہیں تو اپنی شخصیت جاننے اور اپنا ٹیلنٹ ڈسکور کرنے اور کس فیلڈ
میں آپ کو جاناچاہیے اس کے لیے آپ ہمارے چینل انفارمیشن پوائنٹ کو جائن کرسکتے ہیں
اور فری کیرئیر کاؤنسلنگ کےلیے ہمارے واٹس ایپ نمبرپر رابط کرسکتے ہیں۔ 03339987384

0 Comments