نوجوان اگر کامیاب
ہونا چاہتے ہیں
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
پاکستانی قوم کے بارے میں ٹام نے ایک خوبصورت فقرہ کہا ۔
ٹام ایک برطانوی صحافی ہے افغانستان جنگ میں اسے پاکستان میں رہنے کا اتفاق ہوا اس
نے پاکستان کے طول وعرض میں سفر کیا اور پاکستانیوں کو قریب سے دیکھا ۔ اپنے تجربے
کی بنیاد پر اس نے پاکستانیوں کے بارے میں
ایک خوبصورت تبصرہ کیا۔ ٹام نےکہا کہ پاکستانیوں میں حرکت بہت زیادہ ہے یہ دن میں
24 گھنٹے اپنی جان پر کھیلتےرہتے ہیں لیکن
اس حرکت کاانہیں حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ ٹام نے اس سلسلے میں ایک خوبصورت مثال
بھی دی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک بار اندرون ملک سفر کر رہاتھا، ایک جگہ ریلوے
پھاٹک بند ہوگیا، دونوں اطراف ٹریفک رکی ہوئی تھی میں نے دیکھا ایک نوجوان سائیکل کے
پیڈل مارتا ہوا پھاٹک تک آیا، سائیکل سے اترا، سائیکل کندھے پر اٹھائی اور پھاٹک
کی بغل میں موجود ایک فٹ کی جگہ سے گھسٹتا ہوا دوسری طرف نکل گیا، جب وہ اس جدوجہد میں مصروف تھا تو ٹرین تقریبا
اس کے سر پر آچکی تھی اور وہ پھرتی سے پھاٹک عبور کر گیا دوسری سمت اس نے سائیکل اتاری
چھلانگ لگا کر اس کی گدی پر بیٹھا اور گاڑیوں میں راستہ بناتے ہوئے غائب ہوگیا، مجھے
اس کی بہادری نے حیران کردیا میں بے اختیار تالیاں بجانے لگا میں نے سوچا اس شخص
کو لازما اپنے کام کی جلدی ہوگی اس نے اپنے کام پر وقت پر پہنچنا ہوگا ، پھاٹک کھل
گیا ٹریفک چل پڑی ذرا دور ایک مجمع لگا
تھا میں نے دیکھا وہی بہادر شخص اپنے سائیکل کے کیریئرپر کھڑا ہوکر مجمع میں جھانک
رہا تھا میں نے رک تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ وہاں مداری کا تماشہ ہورہا ہے اور
میرا بہادر ہیرو بڑے انہماک سے وہ کھیل دیکھ رہا ہے ، میں حیران رہ گیا اور سوچنے
لگا کہ اس شخص نے اس کھیل میں ہی وقت برباد کرنا تھا تو پھر اسے اپنی جان جوکھوں
میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی تب مجھے اندازہ ہوا یہ شخص اس پوری قوم کا نفسیاتی
نمائندہ ہے یہاں لوگ بہت تیز بھاگتے ہیں ان کی زندگی میں بہت حرکت ہے لیکن اس حرکت
، افراتفری اور بھاگ دوڑ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔ مجھے ٹام سے سو فیصد اتفاق ہے
واقعی ہم لوگ اشارے توڑ کر گھر پہنچ جائیں گے لیکن پھر دھوتی باندھ کر، بنیان پہن کر پیٹ پر خارش کرتے رہیں گے اور ہمارے پاس کرنے کے
یے کچھ نہیں ہوگا۔
بحیثیتِ استاد اور کیرئیر کاونسلر میرے پاس گریجویٹس
نوجوان آتے رہتے ہیں۔یہ اتنے جلد باز
ہوتے ہیں کہ یہ دنوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن جب ان
سے کسی بھی ٹاپک پر بات کی جائے تو ایک
محدود تعداد میں نوجوان طلباء اور طالبات کی سیاست ، معیشت،ادب،مذہب، معاشرت اور
جدید علوم پر دسترس دیکھ کردل کھل اٹھتا ہے۔ گنے چنے ہونہار طلباء کے پاس معلوماتِ
ہوتی ہیں لیکن تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ایسا کیوں ہیں؟ کیوں کہ جلد بازی
اور صرف رٹی رٹائی چیزیں ہیں۔بدقسمتی سے اکثریت ایسے نوجوانوں کی ہے جن سے بات چیت
کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے مضمون کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتے۔کچھ تونصاب کی
کتب بھی تفصیلاً نہیں پڑھتے اور نوٹس پر اکتفا کرتے ہیں یا سیلیکٹڈ چیپٹرتیار کرتے
ہیں۔ایک
بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جنہوں نے سارے زمانہء طالب علمی میں نصاب سے ہٹ کر
ایک کتاب کا بھی مطالعہ نہیں کیا۔(اس میں اساتذہ کی ایک بڑی تعدادبھی شاملِ ھے)۔
لیکن بے تکی باتیں بولنے میں آپ کا گھنٹہ ڈیرھ ضائع کردیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ، اہل بیت، صحابہ کرام،قائد
اعظم، علامہ اقبال، سر سید احمد خان ،نیلسن
مینڈیلا،مصطفےکمال پر بڑے شوق سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں لیکن بالعموم ان کی
معلومات پرائمری لیول سے زیادہ نہیں ہوتیں۔اپنے پسندیدہ موضوع پر دو تین منٹ سے
زیادہ بات نہیں کر پاتے۔کچھ ایسے لطیفہ نما انکشافات کرتے ہیں جن پر پہلے ہنسی اور
بعد میں رونا آتا ہے۔اگر ان سے پوچھا جائے سیکولرازم، لبرلزم، فیمینزم،مارکسزم کیا
ہیں تو انکی معلومات صفر ہوتی ہیں۔البتہ پورے یقین سے یہ ضرور بتائیں گے کہ یہ
نظریات باطل ہیں۔اگر پوچھیں مہاتما گاندھی کون تھا تو اسکی زندگی اور نظریات کے
بارے میں مکمل لاعلمی ظاھر کریں گے۔ہاں ،ایک جواب لازماً دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں
کا دشمن تھا۔ بھٹو صاحب کو ہیرو کہیں گے یا زیرو۔
لیکن اپنی ججمنٹ کی کوئی دلیل نہیں دیں گے۔مسلمان ہونے پر بار بار فخر کا اظہار
کرتے ہیں لیکن اسلام کے بنیادی عقائد پر روشنی ڈالنے کو کہیں توزیادہ تر انکی
معلومات ناقص یا نامکمل نکلتی ہیں۔اگر پوچھیں کہ عیسائیت، یہودیت،بدھ ازم ،ہندوازم
اور دیگر مذاہب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں تو ذیادہ تر جواب نفی میں ملتا ہے۔سائنسی
ترقی اور تحقیق پر سوال کیا جائے تو صرف ماضی کے گنے چنے مسلمان سائنسدانوں کے نام
سنا دیتے ہیں کام نہیں بتا سکتے۔یہ سب بیان کرنے کا مقصدِ تنقید برائے تنقید نہیں
بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے۔ نوجوان اگر
کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو وہ یہ کام اپنی روٹین کا حصہ بنا لیں۔
1۔ نوجوان کتب کا
مطالعہ باقاعدگی سے کریں۔سن
سنائی باتوں اور سوشل میڈیا کی فیک
معلومات سے پرہیز کریں۔
2۔ اپنے علم دوست
اساتذہ کے پاس بیٹھ کر سوالات کریں۔
3۔ دوستوں کے حلقوں میں بیٹھ کرآئیڈیاز اور معلومات کا
تبادلہ کریں۔ ہماری سوسائٹی میں آئیڈیاز اور مستند معلومات کا بہت فقدان ہے۔
4۔ اپنے گھر میں اپنے
عزیزو اقارب کے علم اور تجربے سے استفادہ حاصل کریں۔
5۔ ادبی حلقوں میں
جایا کریں۔
6۔ جستجو اور تحقیق کو
زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔
7۔ زندگی میں چھوٹے چھوٹے
گول سیٹ کریں۔
8۔ دوسروں کا نکتہ نظر
جاننے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
9۔ اختلاف رائے کو
خندہ پیشانی سے برداشت کیجئے۔
10۔ دلیل کا جواب دلیل
سے دینا سیکھیے۔
11۔ ہمارے نوجوان
دوسروں سے بات کرتے وقت اپنی آواز اونچی کر لیتے ہیں اور جب کسی دلیل کا جواب نہیں
بن پاتا تو گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں۔اس سے نہ صرف ان کی اپنی شخصیت سازی کا عمل
رک جاتا ہے بلکہ پورے معاشرے پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
12۔ اور آخری بات جلد بازی کسی کام میں ہرگز نہ کریں ۔
ہر کام کو اپنا وقت دیں۔

0 Comments