سیلاب سے متاثرہ خواتین کی حالت زار
تحریر: ایچ-ایم-زکریا
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے ، یہ آصف علی زرداری کے دور
حکومت میں2008 سے 2010 تک پاپولیشن ویلفئیر کی وفاقی وزیر تھیں۔ ان دنوں سوات سے
لوگ نقل مکانی کر کے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ
امدادی سامان لے کر خود متا ثرین کے کیمپوں میں گئیں، یہ سامان وزارت کے ملازمین
کی ایک دن کی تنخواہ سے خریدا گیا تھا اور
یہ سامان اس لحاظ سے بھی مختلف تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ پہلی بار زنانہ استعمال کی
مخصوص اشیاء ساتھ لے کر گئیں تھیں۔ متاثرین کے کیمپ میں سات لاکھ خواتین تھیں، ان
میں 70ہزار خواتین حاملہ تھیں، یہ تمام خواتین فطری عوامل سے بھی گزرتی تھیں،
چنانچہ کیمپس میں بڑے پیمانے پر ایسے سامان کی ضرورت تھی جو صرف خواتین کےلیے
مخصوص تھیں۔ لیکن بدقسمتی سے امداد فراہم کرنے والے اداروں ، این جی اوز، اور
انفرادی لوگوں کو یہ "ضرورت" یاد نہیں رہیں ۔ چنانچہ کیمپوں میں ایک
بحرانی سی صورتحال تھی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان چونکہ خود خاتون ہیں چنانچہ انھوں
نے اس ضرورت کو "انڈرسٹینڈ " کیا، انھوں نے ایک ڈونر ایجنسی کی مددسے
خواتین کے لیے پچاس ہزار بیگ بنوائے اور یہ بیگ مختلف کیمپوں میں تقسیم کرائے۔
ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ یہ بیگ ان خواتین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھے چنانچہ
انھوں نے ان سب کی آنکھوں میں ممنونیت کے گہرے جذبات دیکھے۔ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا
تھا کہ امدادی سامان بھجوانے والے اداروں اور افراد کو خواتین کی ضروریات کا احساس
کرنا چاہیے ااور کیمپوں میں ایسے کٹس ضرور بھجوانی چاہیے جن میں خواتین کی ضرورت
کا سامان موجود ہو۔ ڈاکٹرصاحبہ کو وہاں ایک اور تجربہ بھی ہوا، وہ ایک کیمپ کے
متاثرین میں امدادی سامان تقسیم کر رہی تھیں ان کے سامنے ایک قطار لگی ہوئی تھی
اور اس قطار میں بے شمار لوگ کھڑے تھے، ان لوگوں میں ایک بزرگ خاتون بھی شامل تھی،
اتنے میں وہاں ایک بزرگ آئے انہوں نے اس بزرگ خاتون کا بازو سے پکڑا اور گھسیٹنا
شروع کر دیا ، وہ بزرگ اس خاتون کو گالیں بھی دے رہے تھے ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
نے اپنے عملے سے پوچھا کہ یہ بابا جی اس خاتون کو کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحبہ کے
عملے نے بتایا کہ بابا جی اس خاتون کے شوہر ہیں وہ اسے قطار میں کھڑا دیکھ کر
ناراض ہوئے اور اسے گھسیٹ کر واپس لے جارہے ہیں ۔ امدادی سامان تقسیم کرنے کے بعد
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اس بوڑھے جوڑے کے ٹینٹ میں گئیں اور ان سے اس نفرت کی وجہ
پوچھی تو وہ بزرگ بولے کہ نفرت کوئی نہیں بس ہم اپنے علاقے کے بڑے زمیندار اور
خوددار لوگ ہیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم مر جائیں گے لیکن حکومتی امداد کوئی نہیں
لیں گے، ڈاکٹر صاحبہ کو وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس جوڑے نے آج تک کوئی امدادی
سامان نہیں لیا، ڈاکٹر صاحبہ نے جب سامان تقسیم کرنا شروع کیا تو بزرگ خاتون بھوک
سے مجبور ہو کر قطارمیں کھڑی ہوگئیں لیکن اس کا خاوند اسے گھسیٹ کر واپس لے آیا
ڈاکٹر فروس عاشق اعوان نے ان سے معذرت کی اور جوڑے سے کہا کہ میں آپ کی بیٹی ہوں
اور پختون اپنی بیٹیوں سے ناراض نہیں ہوتے اس بات پر دونوں میاں بیوی قائل ہوگئے،
چنانچہ ڈاکٹر صاحبہ انہیں اپنے کیمپ میں لے آئیں انہیں کھانا کھلایا ، ان کا طبی
معائنہ کرایااور انہیں امدادی سامان دیا، اس سلوک پر وہ بزرگ خاتون وفاقی وزیر کے
گلے لگ کر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ آج بھی سیلاب زدگان
کیمپوں میں موجود ہر خاندان کے پاس ایک خوفناک کہانی موجود ہے اس سے دو باتیں آج
کے تناظر میں ہمیں اور ہماری امدادی کاروائیوں کی ٹیموں کو یاد رکھنی ہوگی۔ اول یہ
کہ امدادی کاموں میں زیادہ تر مرد حضرات بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لہذا وہ خواتین
کی ان ضروریات کو مد نظر نہیں رکھ پاتے لہذا ان کو خواتین کی ضرریات کو بھی راشن
اور کپڑوں وغیرہ کے ساتھ رکھنا چاہیے۔ دوم یہ کہ متاثرین کی بہت زیادہ تعداد خود
دار لوگوں کی ہے وہ اپنے لیے راشن مانگنا یا لائن میں کھڑے ہونے سے کتراتے بھی ہیں
لہذا امدادی کاروائیوں کی ٹیموں کو ان کی سیلف ریسپکٹ کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔تیسری
اہم بات خواتین سے مل کر بہت سے اور اہم مسائل کا ادراک بھی ہوا مثلا گاؤں کی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ’سرکار کے دیے ہوئے اس چھوٹے سے ٹینٹ میں دو دو خاندان رہتے ہیں۔
بس سمجھ لیں کہ سر چھپا نے کی جگہ ہے۔ بارش سے تھوڑا بہت بچاﺅ ہوجاتا ہے۔ مگر واش روم کے لیے کہاں
جائیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’دور دور تک کھلا علاقہ ہے جس میں کئی فٹ گہرا پانی کھڑا
ہے، حتی کہ کوئی گھنا درخت بھی موجود نہیں ہے جس کی آڑ میں بیٹھ جائیں۔ سرکار کوئی
انتظام کیوں نہیں کرتی؟‘یہ صرف اس خاتون کا نہیں بلکہ ان لاکھوں خواتین کا سوال ہے
جو سیلاب میں بے گھرہوکر کیمپوں میں یا کسی کھلے مقام پر جان بچا کر بیٹھی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’بڑی مشکل میں ہیں۔ کہاں جائیں ،چاروں طرف کھلا علاقہ اور پانی
ہے۔ بے پردگی کا الگ مسئلہ ہے اور پانی میں بیٹھنا آسان نہیں ہے۔ ھم کچھ عورتیں مل
کر دور جاکر ایک چارپائی کھڑی کرلیتے ہیں، اس کی آڑ میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ عورتیں
ارد گرد کھڑی ہوجاتی ہیں تو چاروں طرف سے پردہ ہوجاتا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا ،پانی
تو ہے لیکن ڈرلگتا ہے کوئی سانپ بچھو ،
کوئی کیڑانہ کاٹ لے۔ صحت کے شعبے سے وابستہ ایک لیڈی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انھیں
کچھ کیمپوں میں جانے کاموقع ملا۔ واش روم نہ ہونے کے باعث خواتین نے کھانا پینا
چھوڑ رکھا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’بہت سی خواتین کی علامات یہ بتارہی ہیں کہ وہ پیشاب
کی نالی کی انفیکشن میں مبتلا ہوسکتی ہیں، انھیں باقاعدہ ٹیسٹ اور علاج کی ضرورت
ہے۔ وہ یہ بیماریاں کسی مرد ڈاکٹر کو نہیں بتا سکتیں، حکومت کو چاہیے کہ ریلیف کے
کاموں میں لیڈی ڈاکٹرز کو زیادہ سے زیادہ شامل کریں۔‘آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ ان سب کے بھرے
بھرے گھر برباد ہوگئے ، ان کے اپنے گھر
تھے، اپنی دکانیں تھیں، ان کی گاڑیاں تھیں، اپنے کھیت تھے، اپنے باغات تھے لیکن اب
یہ لوگ دور کہیں دوسروں کے آسرے پر پڑے ہیں ، آپ ان لوگوں کی ذہنی اور جذباتی
کیفیت کا اندازہ لگائیے، گھر سے بے گھر ہونا موت سے بدتر عذاب ہوتا ہے کیونکہ موت کے بعد انسان پر سکون ہو جاتا ہے
لیکن گھر سے بے گھر ہونا ایک ایسی موت ہے جس کا ذائقہ انسان ہر سانس کے ساتھ
جھیلتا ہے ۔صرف ڈسٹرکٹ ڈی آئی خان میں 85 ہزار گھر تباہ ہو گئے ، 147 گاؤں ملیا
میٹ ہوگئے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان گھر سے بے گھر ہو جائے تو اس کی ساری نفسیات
بدل جاتی ہے ۔ یہ لوگ بھی اس قسم کی کیفیت سے گزر رہے ہیں اور ہم نے اگر اس وقت ان
لوگوں کو محبت نہ دی، ہم نے ان کے زخموں پر مرہم نہ رکھی ، ہم نے اگر ان کو سینے
سے نہ لگایا،یہ ایک نازک گھڑی ہے اگر ہم نے اس گھڑی میں احتیاط سے کام نہ لیا تو
یہ لوگ اب باہر سے ٹوٹ چکے ہیں پھر یہ اندر سے بھی ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔

0 Comments