اشرافیہ
ایسے عذاب سے کیوں محروم رہتی ہے؟
تحریر : ایچ-ایم-زکریا
ریاض اور انور
دونوں چچا زاد بھائی تھے۔ صبح اپنی دوکان کے لیے زیریں علاقے میں سامان لینے گئے
تھے۔ ان کے علاقے کی طرف آنے
والی والی سڑک اور دریا ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دونوں چچازاد بھائیوں کی دکان بالائی
بازار میں ہے اس لیے انھیں دوسری مارکیٹ سے اپنی دکان کے لیے سامان لانے جانا ہوتا
ہے۔دونوں جب بالائی علاقے کی طرف آ رہے تھے تو اتنے میں سیلاب آیا اور ان کی گاڑی
سیلابی پانی میں پھنس گئی۔ ان کے ساتھ تین دوست بھی الگ گاڑی میں تھے۔وہ اپنی
دوکان کے لیے سامان لینے بازار گئے تھے، اتنے میں اعلانات ہوئے کہ سیلاب آگیا ہے
اور جو جہاں ہے وہ محفوظ مقام پر رہے لیکن وہ پانچ افراد اپنی گاڑیوں میں واپس
روانہ ہو گئے تھے کہ اتنے میں سیلاب نے انھیں گھیر لیا۔ ابتدائی طور پر تو پانچوں
افراد کی کوشش تھی کہ وہ اپنے ساتھ اپنی گاڑیوں کو بھی بچا لیں۔ جب گاڑی کے اندر
پانی کی سطح بلند ہونے لگی تو وہ دریا کے اندر پڑے بڑے پتھر پر پہنچ گئے لیکن باہر
نہیں نکل سکے تھے۔یہ ذکر ہے خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں وادی دبیر کا جہاں
پانچ افراد کی وہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جو رسیاں پکڑے ایک بڑے پتھر
پر کھڑے ہیں۔سوشل میڈیا پر ان کی تصویریں ایسی وائرل ہوئی ہیں کہ ہر کوئی دل گرفتہ
ہوا ہے اور اس سوچ میں ہے کہ کیا انھیں بچایا نہیں جا سکتا تھا۔بڑے پتھر پر کھڑے پانچوں
افراد کو سیلاب سے نکالنے کے لیے وہاں موجود مقامی افراد نے ریسکیو کے لیے رسیاں
پھینکی اور انھیں کہا کہ رسیاں پکڑ کر سیلابی پانی میں چھلانگ لگا دیں ہم آپ کو
کھینچ لیں گے، پانچوں خوفزدہ تھے لیکن سیلابی ریلے میں پھنسے ایک شخص عبیداللہ نے
رسی کو مضبوطی سے پکڑا اور چھلانک لگا دی جسے مقامی لوگوں نے رسی سے کھینچ کر بچا
لیا جبکہ باقی چار بظاہر اس کشمکش میں نظر
آ رہے تھے کہ وہ چھلانگ لگائیں یا نہیں اور اسی دوران دریا میں سیلاب کی سطح بلند
ہوتی رہی اور آخر کار باقی چاروں سیلاب کی لہروں کی نظر ہو گئے۔ بہہ جانے والے
نوجوانوں کے نام ریاض، انور، بلال، فضل اور عبیداللہ بتائے گئے ہیں۔ لوئر کوہستان
کے اسسٹنٹ کمشنر ہیڈ کوارٹر ثاقب خان کے مطابق" انھیں جمعرات کی صبح دس بجے
اطلاع ملی کہ اس طرح پانچ افراد سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں جس پر فوری طور پر
ریسکیو ٹیم کو تیار کیا گیا اور دس بجکر دس منٹ پر ٹیم روانہ ہو گئی تھی لیکن موقع
پر پہنچنے کے لیے کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ لگ سکتا تھا۔انھوں نے بتایا کہ بارش اور
سیلاب کی وجہ سے راستے بند تھے صرف قراقرم ہائی وے 11 جگہوں پر بند تھی۔ اس کے
علاوہ راستے میں پل بھی تباہ تھے ٹیم ابھی راستے میں تھی کہ ساڑھےگیارہ بجے کے لگ
بھگ اطلاع ملی کہ چار افراد سیلابی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک واقعہ
تھا لیکن اس میں وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے"۔پشاور کے صحافی لحاظ علی نے بتایا کہ ’صوبے کی ملکیت دو ہیلی کاپٹرز ہیں ان میں سے ایک بھی ریسکیو سرگرمیاں سرانجام
نہیں دے رہا۔ایک اور تصویر آنکھوں کے سامنے ہےکیسی دل دہلا دینے والی تصویر ہےجو
سونے بھی نہیں دے رہی ہے، تصویر میں صرف دونوں ہاتھ باہر تھے جبکہ باقی پورا جسم
گیلی مٹی میں دھنس گیا تھا۔ وہ تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک باپ ایک بڑی
بلا ں سے اپنے بچے واپس لینے کے لیے گھنٹوں لڑتا رہا کہ شاید وہ دریائی بلاں اس کے
بچے واپس کردے لیکن آخرکار وہ ہار گیا۔ جب دلدلی زمین سے اُس کی لاش نکالنے کے
لیے کھدائی کی گئی تو اس کے بازو اس انداز میں اوپر اٹھے ہوئے تھے کہ مرنے سے پہلے
اس نے آخری کوشش کی تھی کہ بلا ں کو شکست دے لیکن سیلاب بچوں کے بعد باپ کو بھی نگل
گیا۔ اس تصویر میں جب ایک والد کے سامنے اُس کے بچوں کو سیلاب ایک جن کی طرح بہا
لے گیا تو وہ بچوں کی تلاش میں اس سیلاب میں کود گیا۔ سیلاب کے تیز پانی میں وہ
کئی میل تک اپنے بچوں کو ڈھونڈتا رہا۔ آخر پانی کی وحشی لہروں نے اس باپ کو بھی
دبوچ لیا اور جب اس کی لاش ملی تو اس کے صرف دونوں ہاتھ باہر تھے جبکہ باقی پورا
جسم گیلی مٹی میں دھنس گیا تھا۔اس وقت سرائیکی علاقوں خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان، تونسہ‘
ڈیرہ غازی خان سمیت سندھ اور بلوچستان میں
سیلابی پانی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ گاؤں کے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ جو
وڈیوز ان سیلاب زدہ علاقوں سے سامنے آرہی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ ایک اور
وڈیو میں ایک دیہاتی ماں جس طرح اپنے گھر کی تباہی دیکھ کر ماتم کررہی ہے‘ اسے
دیکھ کر آپ کا کلیجہ پھٹ جائے۔ وہ سرائیکی زبان میں روتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس
کے بچوں نے کہاں کہاں مزدوری نہیں کی تاکہ وہ یہ گھر بنا سکیں۔ سب کچھ دریا بہا کر
لے گیا اور اپنے پیچھے ملبہ اور تباہی چھوڑ گیا۔ ایک ماں کا وہ ماتم سن کر آپ کئی
روز تک سو نہیں پائیں گے۔ایک اور وڈیو میں ایک عورت اپنے بچے سنبھال کر بیٹھی ہے
جس نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ اس کا خاوند کب کا غائب ہے۔ بچے بیمار ہو رہے
ہیں۔ کھانے پینے کو ان علاقوں میں کچھ نہیں ہے۔ چند لوگ ہیں جو خود اپنی مدد آپ
کے تحت ان علاقوں میں مدد کو نکلے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ لوگ خود اپنی مدد آپ کے تحت وہاں رفاہی کام کررہے ہیں۔مختلف علاقوں سے بہت سے لوگ
دوائیوں اور امدادی سامان کے ساتھ ان علاقوں میں پہنچے ہیں کہ ان مصیبت زدہ لوگوں
کو اس وقت خوراک اورکپڑوں کے ساتھ ڈاکٹر
اور دوائیاں بھی درکار ہیں۔ ایک دوست کی فیس بک پر ایک تصویر دیکھ کر دل کی عجیب
کیفیت ہوئی۔ اس دوست نے ایک کیمپ لگایا کہ وہ لوگوں سے چندہ لے کر ڈیرہ اسماعیل
خان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرے۔ ایک خانہ بدوش خاتون جو سارا دن خود
مانگ تانگ کر گزارہ کرتی ہے‘ وہاں سے گزری۔ اس غریب خاتون نے کچھ پیسے نکال کر
وہیں سامنے ڈال دیے تاکہ سیلاب زدگان کی مدد ہوسکے۔ کیا بڑا دل پایا ہے اس خاتون
نے کہ جو سارا دن دوسروں سے مانگا تھا وہ وہیں خیرات کر دیا کہ اس وقت مجھ سے
زیادہ سیلاب زدگان کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ایک اور
جگہ سوشل میڈیا پر پڑھا کہ جب امدادی ٹیمیں ان مصیبت زدہ علاقوں میں پہنچیں تو
وہاں ایک شخص دور بیٹھا تھا۔ وہ ان لوگوں سے امدادی پیکٹ لینے نہیں آیا۔ جب ایک
امدادی ٹیم کا بندہ خود امداد لے کر پہنچا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ
سکول ٹیچر ہے۔ اس کی اگلے ماہ تنخواہ آ جائے گی۔ اس امداد کے مستحق دیگر لوگ ہیں
جن کا سب ذریعہ معاش تباہ ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر انہی سیلاب زدہ علاقوں کی ایک
اور تصویر دیکھی۔ یہ تونسہ کے علاقے کی ہے۔ ایک بلوچ عورت سر جھکائے ساری دنیا کا
دکھ اپنے کندھوں پر اٹھائے مایوس قدموں سے چل رہی ہے۔ پیچھے کچھ فاصلے پر مردوں کا
ہجوم ہے۔ پتا چلا کچھ لوگ وہاں خیمے اور کھانے پینے کا سامان بانٹ رہے تھے۔ وہ
اپنے بچے وہیں چھوڑ کر بھاگ کر گئی کہ وہ بھی جا کر ان سے خیمہ اور کچھ امداد لے
آئے تاکہ بچوں کے سر پر گرمیوں اور حبس کے اس موسم میں کوئی تحفظ تو ہو۔ جب سب
مرد وہاں خیموں کے لیے لڑ رہے تھے تو اس ماں کو کس نے کچھ لینے دینا تھا؟ اس نے
کچھ دیر تو کوشش کی لیکن پھر اسے لگا یہ اس کے بس کا روگ نہیں۔ وہ پیچھے ہٹ گئی‘
کچھ دیر کھڑی رہی کہ شاید کسی کی ضرورت سے کچھ بچ جائے تو اسے مل جائے۔ جب اسے کچھ
نہ ملا تو وہ تھکے ہارے قدموں سے اپنے بچوں کی طرف خالی ہاتھ لوٹ رہی ہے۔ اس تصویر
سے واضح ہے کہ اس سے چلا نہیں جارہا۔ وہی خوف کہ وہ جا کر بچوں کو کیا کھلائے یا
کیا بتائے گی۔ اس بلوچ ماں کی وہ تصویر شاید میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئی ہے۔یہی
حالت بلوچستان میں ہوئی ہے جہاں ایک قطار میں کیچڑ میں لتھڑے چھوٹے بچوں کی میتیں
دیکھ کر آپ پرکپکی طاری ہو جائے۔ ان کے والدین کا کچھ پتا نہیں۔ شاید وہ بھی پانی
میں بہہ گئے ہوں گے۔ سندھ سے بھی ایسی ہی خبریں آرہی ہیں کہ وہاں بھی لوگ سیلاب
کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے ہیں۔تصویر کا ذرادوسراتلخ رخ دیکھیے کہ ہماری اشرافیہ اس سیلاب کا سارا ملبہ یہ کہتے ہوئے کہ یہ
گناہوں کی سزا ہے‘ انہی غریبوں پر ڈال دیا ہے۔ حیران ہوتا ہوں ایک غریب میں گناہ
کرنے کی کتنی سکت ہوتی ہے؟ ایک غریب تو شاید اس طرح کے گناہ سوچ بھی نہیں سکتا جس
طرح کے گناہ اس ملک کی اشرافیہ روز کرتی ہے۔ اگر گناہوں پر ہی عذاب اترنے ہیں تو
یہ عذاب اشرافیہ پر کیوں نہیں اترتے؟ یہ کیسے عذاب یا گناہ ہیں جس کا شکار ہمیشہ
محنت مزدوری کرنے والے غریب طبقات ہوتے ہیں جیسا کہ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا‘ جنوبی
پنجاب اور سندھ کے علاقے۔ غریب ہی ہمیشہ قدرتی آفات کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اشرافیہ
ایسے عذاب سے کیوں محروم رہتی ہے؟اشرافیہ کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ سر جھکائے چلتی
شکست خوردہ ماں کے دکھوں کی فکر کرے جو تھکے ہارے قدموں سے خالی ہاتھ اپنے بچوں کی
طرف لوٹ رہی ہے۔ اشرافیہ کو چھوڑیے آئیےشہر میں ہر جگہ امداد کے کیمپ لگے ہوئے ہیں
اپنے بہن، بھائیوں،بچوں ، بوڑھوں کی دل کھول کر جس طرح ممکن ہو امداد کیجئے وہ
اب صرف آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
آپ اس نمبر پر رابطہ کر کے اپنے متاثرین بہن بھائیوں کی ہر طرح کی مدد کر سکتے ہیں ۔
03154715115

0 Comments